کم حوصلگی انھیں دین کا لبادہ پہنادیتی ہے اورمفاد پرستی نفاق سکھلادیتی ہے اوراس طرح لوگ سمجھتے ہیں دین دنیا دونو ں بن گئی یہی اس وقت دینی قیادتوں کی پہچان بنی جارہی ہے۔ ڈھیلے ڈھالے عقیدے اور غلط عقائد وتصورات نے بھی ایسے تلون مزاجوں کو سہارا دیا ہے کہ وہ اپنی دورخی روش پر قائم رہیں اورمسلم سماج میں مغربی الحاد افکارتصورات اس طرح نتیجہ خیز بن گئے ہیں کہ مادیت کاہی ہرطرف بول بالا ہے اوراذہان وقلوب پر اس کا بری طرح یلغار ہے۔ مگرشیخ ابن باز امام البانی اوران کے طریقہ پرچلنے والے جہاں اورجس جگہ ہیں دینی خوبیوں اورکمالات کووجہ امتیاز بنائے رہے، ان کی پوری زندگی دین کے محورپر گھومتی رہی افسوس تو اس کا ہے کہ شیخین سے وابستگی کے بہت سے دعویداروں کے پاس شیخی کم ظرفی اورچھل کپٹ کے سوا کچھ نہیں ہے ان کا نام آنے پر مگر مچھ کے آنسوبہاسکتے ہیں مگر کردار نہایت افسوسناک رکھتے ہیں۔
شیخ انتہائی رقیق القلب آدمی تھے۔ رقت قلب انسان کی سب سے بڑی دولت ہے۔ رقیق القلب انسان یاد الٰہی اور عذاب الٰہی پر روپڑتا ہے اپنی گناہوں پر روتا ہے جذبہ محبت میں روتا ہے نیکیوں کو یاد کرکے روتا ہے انسان کی تکلیف پر روتا ہے۔ شیخ کی رقت قلب کا مشاہدہ لوگوں نے روز کیاہے دروس میں اکثر شیخ رودیتے تھے۔ جب آدمی رقیق القلب ہو اور رقت قلب اس کی خوبی بن جائے تووہ اذیت پسند، ڈھٹیٹ بہروپیا،کنیہ پرور اورمنافق نہیں رہ سکتا، جب رقت قلب اس کی پہچان بن جاتی ہے تواس کی ہمدردی مناصحت درمندی اوردلسوزی کا مظہر بن جاتی ہے رقیق القلب انسان صحت مند فکر وخیال اوررصحت مند کردار کا مالک ہوتا ہے۔
اکثرایسا ہوا ہے کہ وعید کا ذکر آیا ہے شیخ روپڑے، صحابہ کے فاقہ کا ذکر آیا شیخ روپڑے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پرآنے والی مشکلات کا ذکر آیا شیخ روپڑے، ترغیب وترہیب کی بات آئی شیخ روپڑے اسلاف کرام کی مشقتوں محنتوں کا ذکر آیا، استاذ گرامی کاذکر آیا شیخ روپڑے۔ رقت قلب ایک چشمہ صافی ہے جب دل کے آئینے میں شکست وریخت ہوتی ہے اور آب چشم بہتا
|