Maktaba Wahhabi

233 - 400
کوپسینہ آجائے۔ شیخ کی عالمی شخصیت تھی، دنیا کے ہرخطے سے اورہرطبقے کے لوگ آپ سے ملنے آتے تھے۔ ملک سے لے کر وزیر سفیر تک اورعلماء سے لے کر عوام تک لیکن کبھی شیخ کے درواز ے پر دربان نہیں رہا نہ کسی کو ملنے پرپابندی تھی، نہ مریدوں کا جتھا متعین تھا کہ ہٹو بچو کرتا اور نخرے دکھلاتا، نہ آپ کی شخصیت کے کم وکیف کو مبالغہ آرائی کے ساتھ بتانے کے لیے عقیدت مند اپنے طورپر مقرر تھے۔ کسی کو ان جعلسازیوں کا تانا بانا بننے کی جرأت نہ تھی۔ نہ بگارمیں لگنے والے خدام کا لشکر تھا کہ شیخ کو چھوئی موئی بنائے رکھیں جیسا کہ تصوف زدہ معمولی معمولی مشائخ او رمرشدوں کی دکانوں میں ہوتا ہے۔ شیخ کا دل بھی کھلاتھا دروازہ بھی کھلا اورہاتھ بھی کھلا تھا۔ لوگ آتے تھے اور مستفید ہوکر جاتے تھے۔ ہرایک اکثر توقع سے انھیں اونچا پاتا تھا، محبت بھی پاتا تھا۔ احترام انسانیت بھی پاتا تھا اوربرتاؤ میں یکسانیت ومساوات بھی۔ بات چیت نشست وبرخاست، خورد ونوش توجہ والتفات ہرایک میں یکسانیت اورمجلس ذکر الٰہی سے معطر۔ نہ کسی کی غیبت وہجو۔ نہ اس کی اجازت وقار واعتبار کا بول بالا۔ شیخ نے ہرحرکت ونشاط میں ایسا اسلامی وقار قائم کررکھا تھا اور لوگوں پر ایسی شفقتیں تھیں کہ محسوس کرتے تھے کہ ان پر شفقت پدری کا سایہ ہے کبھی کسی نے کسی شے میں رعونت کا ادنیٰ شائبہ بھی نہ دیکھا نہ محسوس کیا۔ دراصل یہی اصل تواضع ہے جس کو دیکھ کر لوگ شیخ کے گرویدہ ہوجاتے تھے اوریہ تواضع مظہر تھا شیخ کے تقویٰ اخلاص اتباع سنت اور ہمدردی خلائق کا۔ تواضع ذہن ودماغ حرکت وعمل سے اس وقت عکس ریز ہوتا ہے اوراس کی خنکی اورتابانی اس وقت محسوس ہوتی ہے جب انسان کا باطن مجلی ومصنفی ہو اوراس کے اندر محبت الٰہی اور محبت رسول بھرچکی ہو اورانسان کا شعور تعبدی کامل ہوچکا ہو۔ اور انسان تقوی اخلاص توکل خوف ورجا اوراطاعت پذیری میں اس مقام بلند پر پہنچ گیا ہو جہاں انسان اپنی ذات سے اوپر اٹھ جاتا ہے اورہمہ آن تضحیہ وقربانی کے لیے تیار رہتاہے۔ شیخ نے اپنے تواضع سے دلوں پر حکومت کی، ساری دنیا کے لیے پرکشش بن گئے۔ شیخ کا تواضع اتنا مضبوط اور توانا تھا کہ مخالفوں کے ہتھیار کند ہوگئے منافقین ہاتھ ملتے رہ گئے،
Flag Counter