ہے۔ آج کے ڈھیٹ بے وفااوربے مروت ماحول میں کوئی کسی کو گنتا نہیں۔ ایسے ماحول میں شیخ کے لیے جذبہ محبت اورجذبہ احترام میں سماحۃ والدنا کا خطاب عظیم معنی رکھتا ہے۔ ماحول یہ تھا کہ آدمی شوق سے آئے اور خوش ہوکر جائے اورہرایک کو یکساں محبت ملے، یکساں توجہ ملے اور ہرایک کے ساتھ یکساں سلوک ہو۔ امام عصر کی محفل سے کوئی یہ درد لے کر نہ جائے کہ مجھے حقیرگردانا گیا یا مجھے دوسرے تیسرے درجے پر رکھا گیا۔ چاہنے والے ہردم شیخ کو گھیرے ہوئے، مسجدمیں ہیں گھیرے میں۔ مسجد کے دروازے پر گھیرے میں، جوتا پہن رہے ہیں مخلصین گھیرے ہوئے ہیں، گاڑی میں بیٹھ رہے ہیں چاہنے والے دونوں طرف گھیرے ہوئے ہیں گاڑی چلنے کو تیار ہے لوگوں کا جماؤڑا ختم نہیں ہوتا۔ ہرایک اپنے شفیق باپ سے عرض کررہا ہے پوچھ رہا ہے فریاد کررہا ہے اپنی حاجت پیش کررہا ہے سب کی سنی جارہی ہے۔ سب کی طلب پوری ہورہی ہے۔ گھرمیں ہیں آفس میں ہیں تب بھی بھیڑ۔بیٹے باپ سے التجائیں کررہے ہیں اوران کی التجا ئیں پوری ہورہی ہیں۔ امام عصرجہاں بھی جائیں ہرجگہ فداکاروں کی بھیڑ۔ وہ شفقت وہ ہمدردی وہ تڑپ کہ سارے عالم میں مسلمانوں کے لیے ان کی شبیہ باپ کی بن گئی تھی۔ سارے امراء بھی والدنا المفضال کہتے ہیں وزراء بھی کہتے ہیں طلباء بھی کہتے ہیں پروفیسربھی کہتے ہیں اور بیوروکریٹ بھی کہتے ہیں۔ خواتین بھی کہتی ہیں اورمرد بھی کہتے ہیں۔اورخادم الحرمین بھی کہتے ہیں۔
آدمی جب بے پناہ ہوجاتا ہے اوراس کی محبتیں بے پناہ ہوجاتی ہیں اوراس کی زندگی کا ہرلمحہ خشیت عبودیت خدمت دین او رخدمت خلق میں گزرنے لگتا ہے رات دن اسے اشاعت دین کی فکر ستاتی رہتی ہے اورغم امت میں تڑپتا رہتا ہے تب وہ پوری امت کے لیے فادرلی فیگربن جاتا ہے کافروں کی چالوزبان میں نہیں۔ حقیقی زبان اورمفہوم میں۔ شیخ نے اپنی بے پناہ ہمدردی شفقت اپنائیت حلم او رتواضع کے ذریعہ لوگوں کے لیے باپ ہونے کا ثبوت دیا اور لوگ بے جھجک کہنے لگے والدنا سماحۃ والدنا والدنا المفضال۔ امام عصرکی مقبولیت کا یہ عالم تھا کہ مسلم عوام میں یا تنظیمات میں اختلاف ہوتا یا شخصی طورپر کسی کے اند رکسی مسئلے میں تعنت
|