اللہ کی راہ میں لٹادیا۔تنخواہ ملی اسے اپنے اوپر اوربچوں پر سادگی سے خرچ کیا، بقیہ غریبوں محتاجوں اورمہمانوں پرخرچ کردیا۔ اورکبھی تنخواہ سے روزمرہ ضرورت پوری نہ ہوئی توادھارلے لیا۔ محتاجوں کی حاجت پوری کرنے کے لیے پاس کچھ نہ رہا تومقروض ہوگئے۔
امام عصر، زہد، حب فی اللہ، دین کے لیے فدائیت، خدمت خلق میں یکہ تازی تواضع حلم اور تناصح میں اس مقام ارفع پر فائز تھے جہاں خال خال محبوبان الٰہی پہنچ سکتے ہیں۔ اس مقام ارفع پرپہنچنے کے بعدایسے لوگوں کو کائنات میں محبوبیت حاصل ہوجاتی ہے۔ امام عصرکو محبوبیت حاصل تھی۔ سلطان امیرغریب وزیر سفیر پروفیسر طالب علم تاجر بیوروکریٹ مردعورت سب کے پیارے تھے اورساری دنیا میں پیارے تھے۔ شیخ کے انتقال کے موقع پر ہرمیدان کاراورہرطبقے اورہرجنس اور دنیا کے ہرخطے سے جوتاثرات وبیانات آئے ہیں ان سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ لوگوں کے دلوں میں بستے تھے۔ چند باتوں میں سب متفق ہیں۔ وہ وقت کے سب سے بڑے زاہد تھے سب سے بڑے حلیم ومتواضع تھے سب کے لیے باپ کا درجہ رکھتے تھے۔ سب سے بڑے مفتی فقیہ اور عالم تھے دنیا میں سب سے بڑی شخصیت تھے۔ بیسویں صدی کے نصف اخیر اورپندرہویں صدی کے ربع اول میں ان جیسا دنیا میں کوئی نہیں تھا سب سے بڑے فیاض مہمان نواز اورہمدرد خلائق تھے۔
امام عصرعلماء طلباء او رحاجت مندوں کے لیے محبت شفقت اورہمدردی کا منبع تھے اورلوگ ان کے لیے محبت کا بے پناہ جذبہ رکھتے تھے۔ آدمی جتنااپنی ماں باپ سے جذباتی محبت رکھتا ہے لوگ اس سے بڑھ کر امام عصرسے محبت رکھتے تھے اورشیخ نے زندگی بھر لوگوں کے لیے اپنے دل کو کھلا رکھا اپنے درکو کھلا رکھا اوراپنا بازو پھیلائے رکھا۔ دنیا سے آئے ہرقسم اور ہرطبقے کے لوگوں کو گلے لگایا کبھی نہ ہٹو بچو کا ماحول رکھا، نہ کسی کو اجازت تھی کہ کسی آنے جانے والے کے لیے کوئی منفی رویہ اپنائے۔ایک بارکوئی مصری طالب علم شیخ کے یہاں چار ماہ ٹھہرارہا طباخ نے اس سے پوچھ لیا، اتنے دن سے تم کیو ں یہاں ٹھہرے ہوئے ہوشیخ کو پتہ چلا،شیخ نے طباخ کو نکال دیا۔شیخ نے شدت سے محسوس کیا کہ اس طالب علم کی توہین ہوئی
|