نومسلموں کے لیے مشروع تھا غرضیکہ مسلم سماج ومعاشرہ میں احتیاج، پریشانی، الجھن، مصیبت، جبر، تعلیمی ترقی، دینی فروغ، اکرام علماء وطلباء وغیرہ کے مدوں میں جوجائز شکلیں ہوسکتی تھیں تعاون حاصل کرنے کی اور دینے کی ان تمام صورتوں میں شیخ نے معاونت کی اوردل کھول کرکی۔ للہ فی اللہ کی دلی مسرت کے ساتھ، اوررضائے الٰہی کے لیے۔
شیخ کے اس طریقہ کار کو دیکھ کر گلف میں خدمت دین، خدمت علم اور خدمت خلق کا ایسا ماحول بنا کہ ہرصاحب حیثیت نے کچھ نہ کچھ کرنے کا مزاج بنالیا اوربہت سے ادارے بھی وجودمیں گئے اوران سارے کاموں کی انجام دہی کے خواہش مند ہوئے جو شیخ ابن باز کرتے تھے۔ ایک عام تنخواہ دار بھی خواہش مند ہوتا ہے کہ غریب ممالک میں کوئی مسجد بنوادے اوراس کے حق میں صدقہ جاریہ کا انتظام ہوجائے۔
شیخ نے خلق الٰہی کے تعاون میں وہ کارنامے انجام دیے ہیں اورعالمی پیمانے پر کہ اس سے پہلے مسلم تاریخ میں اس کی مثال مشکل ہے دنیا کے ہرکونے میں شیخ کاعلمی ومالی فیض پہنچا۔ خود ہندوستان کی مثال سامنے رکھیں۔ یہاں جماعت اسلامی، تبلیغی جماعت دیوبندی ندوی اوراہل حدیث ادارے اورعلماء جن کا تعلق باہر سے بن گیا سب بلاواسطہ یا بالواسطہ شیخ ابن باز کے فیض سے بہرہ یاب ہیں۔ اس پر قیاس کرلیجئے دوسرے ملکوں کو اوراگر دیکھا جائے توبرصغیر کے سوا دیگر ممالک میں علی الاطلاق تمام مسلمانوں نے ان کا فیض حاصل کیا ہے۔ علمی بھی اور تعاونی بھی۔
پوری زندگی میں امام عصر کی علمی دعوتی اورتعلیمی رفاہی کارکردگی کتنی ہے اسے کوئی ریکارڈ نہیں کرسکتا ہے اگرایک ٹیم مل کر آپ کے فیوض ماثر اور کارناموں کو جمع کرنا چاہے تواس کے بس کی بات نہیں۔ اگرکوئی شیخ کی روزمرہ کا رکردگی کے ایک مہینہ کا ریکارڈ بناناچاہے تووہ بھی مجلدات میں آئے گا۔ مثلاً اگرشیخ نے روزانہ سو آدمیوں کا کام نمٹایا ہے 20 آدمیوں نے آپ کے دسترخوان پر بیٹھنے کا شرف حاصل کیا ہے50 لوگوں نے آپ سے فتویٰ پوچھا ہے 50آدمیوں نے آپ سے ملاقات کی ہے 4 گھنٹہ آپ نے پڑھایا اور درس دیا ہے مہینے میں
|