Maktaba Wahhabi

222 - 400
خود کو فنا کرنا پڑتا ہے مستنداورمعتبر سلفی علماء اکثر اپنی دینی تحریروں میں اظہار ذات اور حب الظہورکے مظاہرے سے بچتے ہیں۔ شیخ کے فتاویٰ کی دوسری گراں قدر خوبی یہ ہے کہ ان کے فتاوی میں مسائل کو صحیح نوعیت میں پیش کیا جاتا ہے اورمختلف عصورمیں مذہبی کھینچ تان اورمسلکی تعصبات کی بناء پر تاویل باطل کا جو چکر چلا آیا ہے اس سے قطعاً احتراز کیا جاتا ہے، اس لیے مسائل کو ارشاد الٰہی اورفرمان نبوی کی روشنی میں بتادیا جاتا ہے۔ اس سے یہ فائدہ ہوتا ہے کہ مسلمانوں کے قلوب واذہان اسوۂ رسول سے جڑجاتے ہیں اورانھیں دینی مسائل منطق فلسفہ کے مسائل نہیں معلوم ہوتے۔ نہ صدیوں کے قیل وقال کے پشتاروں کو انھیں ڈھونا پڑتا ہے۔ اور نہ تعصبات کی الجھنوں سے انھیں دوچار ہونا پڑتا ہے۔ ہوا یہ ہے کہ دینی مسئلے کی صحیح نوعیت مسلکی ضدبازیوں کی نذرہوگئی ہے اورمسئلے آسان ہونے کے بجائے مشکل بن گئے ہیں اورایک صحیح مسئلہ بھانت بھانت کی شکل اختیار کرگیاہے پھرجبریہ اسے عوام پر لاددیا گیا اوراسے فقہ وفقاہت سے جوڑدیا گیا اورپھراس کے تحفظ کے لیے مسلکی تعصب اورحزبیت کا پہرہ بٹھادیا گیا۔ امام عصر کی خوبی یہ ہے کہ انہوں نے دینی مسائل کو وقتی وزمانی حدبندیوں، شخصی فکروفہم کی چھاپ، اورتقلیدی تعصب اورجبر کے جہنم زار سے باہر نکالا۔ اوران کو ان کی صحیح نوعیت میں پیش کیا اس سے ان کے تربیتی تعلیمی اوراصلاحی پہلو نمایاں ہوگئے اورانھیں جونزاعی مسائل کی حیثیت ملی ہوئی تھی ختم ہوگئی۔ پورے عالم میں اس نبوی سلسلے کو پھیلانا اورعلماء وعوام میں اس کی ترویج واشاعت کرنا ایک تجدیدی عمل ہے۔ امام عصرنے افتاء سے تجدیدی عمل کا کام لیا۔ اورسارے عالم کے مسلمانوں کو اس سے متاثرکیا اوران کی اصلاح کی۔ شیخ کے فتاوی کا ایک تیسرا پہلویہ ہے کہ انہوں نے جدید معاشی سیاسی سماجی۔۔۔ مسائل پر بھی فتاوے دیے یہ فتاوے بھی اپنی ممتاز نوعیت کے ہیں۔ ان کے پڑھنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ ایک قلب مطمئن الحادی نظریات اورمغربی افکار کے دباؤ میں ذرہ برابر نہیں ہے اس نے ان مسائل کو بھی کتاب وسنت کی روشنی میں حل کیاہے اور دینی واسلامی روح ان کے اندر
Flag Counter