کی تھی وہ اپنے آپ میں بالکل نمایاں خصائص کے حامل ہیں۔ فتاویٰ کی خوبیوں کی بنیاد پر انھیں بے پناہ مقبولیت حاصل ہوئی مختلف موضوعات پر رسائل کی شکل میں بھی فتاویٰ شائع ہوئے اور دنیا کے جرائد ومجلات میں لاتعداد زبانوں میں انھیں شائع کیا گیا اورپڑھاگیا۔ دنیا کے ہرخطے میں مختلف زبانو ں میں انھیں پہنچایا گیا اوران سے استفادہ کیا گیا۔ ’’نورعلی الارب‘‘ ٹی وی پروگرام میں ان کے فتاویٰ کو عالمی مقبویت حاصل ہوئی۔
شیخ کے فتاویٰ میں یسروسہولت بالکل نمایاں نظر آتی ہے۔ فتاویٰ چونکہ عقیدہ وعمل کے لیے ہوتے ہیں۔ اس لیے ان کا آسان اورسہل ہونا بہت ضروری ہے۔ فتاویٰ کی تاریخ میں شیخ ابن باز کے فتاویٰ آسانی اورسہولت میں ممتاز ہیں۔ ایک عام پڑھا لکھا آدمی بھی ان سے استفادہ کرسکتا ہے اورانھیں سمجھ سکتا ہے فتاویٰ کی پرپیچ روکھی بے رونق اور قانونی زبان کو شیخ نے ارشاد وہدایت کی زبان میں بدل دیا۔ دراصل ان کا کمال یہی ہے کہ ہرحیثیت سے ان کی شخصیت اوریجنل ہے۔ عام مفتیان کرام فتویٰ کے پرچلت اورمتداول اسلوب اورزبان کی بندھن سے خود کو آزاد نہیں کراپاتے۔ لیکن شیخ کی بات ہی اورہے۔ ان کی علمی اصالت، ان کی شخصی اصالت، ان کی اجتہادی اصالت، ان کی فقہی اصالت بالکل اپنا الگ رنگ رکھتی ہے وہ کسی بندھن میں انہیں پڑتے۔تواضع اورحلم ایسا کہ کہیں ذرہ برابر انا اورشخص شیخ کی اپنی تعبیر وتشریح میں نمایاں نہیں ہوتا ہے ہضم ذات اوربے نفسی ہرہر جنبش لب اور جنبش قلم میں نمایاں ہے اوردینی دعوتی تقاضے کے مطابق ان کی ہر تحریر وتقریر بالکل نمایاں رنگ کی بھی حامل ہے۔
دراصل یہی وہ خوبی ہے مشائخ سعودیہ میں شیخ الاسلام محمد بن عبدالوہاب سے لے کر امام عصر ابن بازوابن عثیمین تک رحمہم اللہ اجمعین جوکہیں بھی دیگر مشائخ میں زیادہ نمایاں نہیں ہے۔ سلفی علماء جہاں بھی ہوں ان کے اندر یہ خوبی نمایاں رہنی چاہیے اوربڑی حدتک رہتی ہے۔لیکن غیروں کے ہاں تحریروں میں ہضم ذات مشکل سے ملے گی۔ بات یہ ہے کہ دوسرے تصوف یا تفلسف کے حوالے سے بات کرنے کے عادی ہوتے ہیں اور دونوں میں ادعا اور اظہار ذات لابدی ہے اورسلفیت میں ادعا اوراظہار ذات کی گنجائش نہیں یہاں دین کی خاطر
|