Maktaba Wahhabi

71 - 239
ملک بدر کر دیا جائے اور اے انیس! جاؤ اور اس کی بیوی کو (اگر وہ اعتراف کر لے تو) سنگسار کر دو۔‘‘ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم ملتے ہی انیس گئے اور (جب اس عورت نے اپنی غلطی کا اعتراف کر لیا تو) اسے سنگسار کر دیا۔ [1] قارئین کرام ذرا غور کریں ! یہ اس دور کی بات ہے جس کے بارے میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے شہادت دی ہے کہ وہ سب سے اچھا دور ہے۔ پھر بھی نوکر اور مالکن کے آزادانہ میل جول اور گھر کے اندر نوکر کی بلا روک ٹوک آمد و رفت سے شیطان نے ان کے درمیان غلط تعلقات کو جنم دے دیا۔ پھر آج کے اس دور کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے جبکہ ایمان و عقیدہ کا جگہ جگہ جنازہ نکل رہا ہے؟ فحاشیت و عریانیت اور زنا کاری ہر چہار سو عام ہو چکی ہیں اور زنا ایک ایسا معمولی سا فعل سمجھ لیا گیا ہے جیسے کسی نے چائے کا ایک کپ پی لیا یا سگریٹ کا ایک کش لے لیا؟ ایسی صورت حال میں کیا جواب ہے ان ایڈوانس فیملیوں کا جن کے گھروں میں جوان نوکر یا ڈرائیور کا بلا روک ٹوک آنا جانا ہوتا ہے جبکہ ان گھروں کے اندر ان کی جوان عورتیں اور نوجوان لڑکیاں بھی ہوتی ہیں ؟ ان گھروں میں کیا کچھ گل کھلتا ہو گا؟ کیا کوئی بھی مسلمان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان کا انکار کرنے کی جرأت کر سکتا ہے: ( (اَ لَا لَا یَخْلُوَنَّ رَجُلٌ بِامْرَأَۃٍ اِلاَّ کَانَ ثَالِثَھُمَا الشَّیْطَانُ)) [2] ’’آگاہ ہو جاؤ! کوئی بھی اجنبی مرد جب کسی اجنبی عورت کے ساتھ خلوت میں ملتا ہے تو ان کے ساتھ تیسرا شیطان ہوتا ہے (جو ان کے اندر گندے جذبات کو جنم دیتا ہے)۔‘‘
Flag Counter