ہے اور جہاں بڑی کلاسوں میں پہنچنے کے بعد نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کے لیے مشترکہ سوئمنگ لازمی ہوتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ برطانوی اخبار ایکسپریس کے مطابق ہر سال ایک لاکھ برطانوی طالبات حاملہ ہوتی ہیں ۔ (اردو نیوز، جدہ، ۶؍ اکتوبر ۱۹۹۷ء)
در اصل ماحول کا یہی وہ منفی اثر ہے جس میں رہنا ایمان و عقیدہ کے لیے خطرہ اور چیلنج ہوتا ہے اور اسی لیے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس ماحول سے ہجرت کر جانے کا حکم دیا ہے، جہاں کفر والحاد اور دین سے بے زاری کی فضا کا تسلط ہو۔ جو لوگ دائرۂ اسلام میں داخل ہونے کے بعد کفر والحاد کے ماحول سے ہجرت نہ کریں ان سے مسلمانوں کا وہ رشتہ نہیں ہونا چاہیے جو اسلام کا تقاضا ہے۔ (الانفال: ۷۲) اس لیے کہ ماحول کا انسانی زندگی پر بہت زیادہ اثر ہوا کرتا ہے اور انسانی بچے کا تو حال یہ ہے کہ وہ بغیر سکھلائے بتلائے خود سے اپنے دو قدموں پر چل بھی نہیں سکتا، چہ جائیکہ وہ انسانی صفات کا متحمل ہو سکے۔ جبکہ بھیڑ بکریوں کے بچے بھی پیدا ہوتے ہی چار پاؤں پر چلنا از خود سیکھ جاتے ہیں ۔
برطانیہ یا اسی طرح دیگر یورپی ممالک کا بھی دین سے بے زاری کا یہی حال ہے۔ اگر وہاں دین ہے بھی تو تقریباً فیشن ایبل بن چکا ہے۔ ایسی صورت حال میں ہمارے برصغیر پاک و ہند کے جو مسلمان امریکہ یا یورپ میں رہائش پذیر ہونے کے لیے حصولِ ویزہ کی تگ و دو میں لگے ہوئے ہیں ، اگر ان کے اندر دین اسلام کی تھوڑی سی بھی رمق باقی ہے تو انہیں مذکورہ واقعہ سے ہوش کے ناخن لینے چاہئیں ۔ روزی کا مسئلہ تو اللہ تعالیٰ کہیں بھی حل کر دے گا۔ جب اس نے منہ کھولا ہے تو دانہ بھی دینا اسی کا کام ہے۔ پھر ایسی جگہ روزی روٹی کی تلاش میں جانا اور اس کے لیے جان توڑ کوشش کرنا جہاں عقیدہ و ایمان کا خطرہ در پیش ہو، کسی با وقار با غیرت مسلمان کے شایانِ شان نہیں ۔
٭٭٭
|