Maktaba Wahhabi

54 - 239
جائے۔ ہم نے سوچا کہ اب بچہ نہیں بچے گا اور اسی طرح چھ مہینے گزر گئے۔ بچہ نہ دیکھتا نا بات کرتا اور نہ ہی حرکت کرتا، لیکن عورت اپنی دعاؤں اور قرآن پاک تلاوت میں مستمر رہی۔ صبر و ہمت کے ساتھ دوسری عورتوں اور مریضوں کی طرح رونا دھونا نہیں کیا اور نہ ہی کسی سے کوئی شکایت کرتی، بلکہ اگر اس کا شوہر پریشان ہوتا تو اسے وہ ہمت اور دلاسہ دیتی۔ پھر دو مہینے بعد ہم لوگوں نے بچے کو بچگانہ وارڈ میں شفٹ کر دیا۔ وہاں سے وہ بچہ اٹھ کر اپنے والدین کے ساتھ ایسے گھر چل دیا جیسے اسے کچھ ہوا ہی نہیں تھا۔ قصہ یہیں ختم نہیں ہوتا ہے بلکہ ایک دن وہ عورت اپنے شوہر کے ساتھ مجھ سے ملنے کے لیے آئی اور اس کی گود میں ایک دودھ پیتا بچہ تھا۔ میں نے کہا: ماشاء اللہ یہ چھٹا یا ساتواں بچہ ہے اور سب سے زیادہ تعجب مجھے اس وقت ہوا جب اس کے شوہر نے کہا، یہ دوسرا بچہ ہے اور جس بچے کا آپ نے علاج کیا تھا وہ پہلا بچہ ہے جو شادی کے سترہ سال کے بعد بہت زیادہ علاج کے بعد پیدا ہوا ہے۔ غور و فکر کا مقام ہے کہ ایک عورت جو سترہ سال کے بعد ماں بنی ہو اور اس کا بیٹا اسی کے سامنے موت وحیات کے بیچ جھول رہا ہو اور وہ اللہ کے علاوہ کوئی نام ہی نہ لے رہی ہو، کتنا اعلیٰ درجے کا یہ ایمان ہے اور کسی قدر اللہ پر بھروسہ ہے۔ آج کے اس دور میں ایسا ایمان واعتماد کم ہی دیکھنے کو ملتا ہے بلکہ ابھی چند دنوں کی بات ہے کہ ایک مریض نے اپنے خوف سے ہم سب کو پریشان کر دیا اور وہ کوئی بچہ نہیں بلکہ یونیورسٹی کا پروفیسر ہے اعتماد اور بھروسے کے معاملے میں ہمیں غور کرنے کی ضرورت ہے۔ آپ جانتے ہیں اس کا سبب کیا ہے۔ اس کا سبب نماز ہے۔ ایمان ہے، موت کا خوف ہے، اس لیے کہ ہمارے گناہ ہماری نیکیوں کے مقابلے میں بہت زیادہ ہیں ۔ جس کی وجہ سے ہم موت کے لیے تیار نہیں ہیں ، اگر ہم پابندی سے نماز پڑھیں ، رات کے آخری حصوں میں جب ساری دنیا نیند کی آغوش میں ہوتی ہے اٹھ کر اپنے رب سے تعلق جوڑیں ، گناہ سے بچیں اور نیکیاں کریں تو پھر ہمارے دل سے موت کا ڈر ختم ہو جائے گا اور ہم اللہ تعالیٰ پر ہر معاملے میں بھروسہ رکھیں گے۔
Flag Counter