دیا۔ رکانہ کو اس سے بڑا تعجب ہوا۔ وہ کھڑا ہو کر متفکرانہ انداز میں کچھ سوچنے لگا۔ کیونکہ اس کے ساتھ بے شمار لوگوں نے کشتی کی تھی مگر یہ کبھی نہ ہوا تھا کہ کسی نے اسے پچھاڑا ہو۔ آج جبکہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے کشتی میں پچھاڑ دیا تھا تو وہ کھڑے کھڑے نہ معلوم کیا سوچنے لگ گیا اور تھوڑے سے توقف کے بعد کہنے لگا:
( (إِنَّ شَأْنَکَ لَعَجِیْبٌ))
’’آپ کا معاملہ بھی بہت عجیب ہے (بڑے طاقتور ہیں )۔‘‘
رکانہ رضی اللہ عنہ نے حسبِ وعدہ اسی وقت اسلام قبول کر لیا۔ مگر اکثر مورخین نے لکھا ہے کہ انہوں نے فتح مکہ کے موقع پر اسلام قبول کیا تھا۔ امیر معاویہ کے زمانے میں ۴۲ ہجری میں ان کی وفات ہوئی۔ انہوں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم س یہ حدیث روایت کی ہے:
( (اِنَّ لِکُلِّ دِیْنٍ خُلُقًا، وَ خُلُقُ ہٰذَا الدِّیْنِ الْحَیَائُ))
’’ہر دین کی ایک امتیازی خصلت ہوتی ہے اور اس دین (اسلام) کی امتیازی خصلت حیا ہے۔‘‘
(ماخوذ از سنہرے حروف، عبدالمالک مجاہد)
٭٭٭
|