( (زَادَکَ اللّٰہُ حِرْصًا عَلَی طَوَاعِیَۃِ اللّٰہِ وَطَوَاعِیَۃِ رَسُوْلِہِ۔))
’’اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت و فرماں برداری پر تمہیں مزید حرص سے نوازے۔‘‘[1]
اللہ اللہ، کیا اطاعت رسول ہے؟ اس حدیث سے اندازہ کریں کہ صحابہ کرام کو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے کتنی محبت و عقیدت تھی اور یہ بھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی باتوں کا کتنا احترام تھا کہ جو فرمایا اس پر فوراً ہی عمل پیرا ہو گئے۔ کیا آج کے مسلمان بھی اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات ماننے کو تیار ہیں ، جیسے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم مانا کرتے تھے؟ کیا آج کے مسلمان بھی وہیں کے وہیں رک جانے کو تیار ہیں جہاں انہیں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاداتِ گرامی سنائے جاتے ہیں ؟
بہت سارے مسلمانوں کو دیکھا گیا ہے کہ جب وہ کوئی غیر شرعی کام کر رہے ہوتے ہیں اور انہیں رکنے کو کہا جاتا ہے تو وہ بالکل نہیں مانتے۔ اگر کوئی انہیں اللہ اور اس کے رسول کے ارشادات سنائے تو بھی ان پر کوئی اثر نہیں ہوتا۔ الٹے بحث و مباحثہ شروع کر دیتے ہیں اور اللہ اور اس کے رسول کے ارشادات کو سن کر ایسے منہ بسورتے ہیں جیسے کوئی انتہائی معیوب بات ان سے کہہ دی گئی ہو۔ پھر بھلا آج کا مسلمان صحابہ کرام کے ہم پلہ کیونکر ہو سکتا ہے جو ارشادِ نبوی سنتے ہی بلا حجت عمل پیرا ہو جاتے تھے۔
٭٭٭
|