اس سے کسی کو انکار نہیں کہ مختلف خطہ ہائے ارض میں اس شخص کے معتقدین لا کھوں سے متجاوز ہیں اور اس سے پہلے کروڑوں مسلمانوں کے دلوں میں اس کا احترام موجود ہے، وہ شیخ کے فتاویٰ پر پورا اعتماد کرتے ہوئے اپنی راہیں متعین کرتے ہیں، یہ سب چیزیں آپ کو فی زمانہ امت کا ممتاز ترین فرد اور راہنما بنا دیتی ہیں، کیا شیخ عالم اسلام کی عظیم ترین مملکت سعودی عرب کے دینی اختیار وراہنمائی کے اعلیٰ ترین ادارے کے چیئر مین نہیں ہیں ؟ لیکن یہ دیکھنا ہے کہ وہ کس طرح اس ادارے کو چلاتے ہیں، اس اعلیٰ ترین عہدے کے بعد کیا آپ میں کوئی عظمت وافتخار کا پہلو دکھائی دیتا ہے؟ کیا اس کے باوجود آپ کے گرد محافظوں کی جمعیت ہر وقت اکٹھی رہتی ہے؟ ہر گز نہیں، بلکہ مملکت سعودی عرب کے عظیم ترین ادارے کا سر براہ اسی سادگی اور وقار کا آئینہ ہے جو سادگی اور محبت دین حنیف ’’اسلام ‘‘ کا خاصہ ہے۔
ہم دفتر کی عمارت میں داخل ہوئے، جہاں کوئی دربان نہ تھا، شیخ کا دفتر کہاں ہے؟ اندر کی طرف۔۔۔جہاں کوئی شور نہیں، ہر سوعافیت وسکون ہے، قریب ہے کہ شیخ کی شخصیت انہیں دفاتر میں گم ہو کر رہ جائے۔۔ اس عمارت کی شان نرالی ہے جو اپنے ارد گرد کی عمارتوں سے انوکھی دکھائی دیتی ہے، صرف ایک منزلہ جس میں بے شمار لوگوں کے مسائل کے حل موجود ہیں۔ ہم میں سے ایک پوچھتا ہے شیخ کا دفتر کہاں ہے گزرنے والا شخص کہتا ہے کہ وہ نماز پڑھ رہے ہیں، پھر پوچھتے ہیں، کہاں ؟ ایک خستہ حال شخص جواب دیتا ہے کہ وہ بڑی مسجد میں نماز پڑھ رہے ہیں، ریاض میں موجودگی کی صورت میں تمام فرضی نمازیں آپ اسی مسجد میں ادا کرتے تھے۔
شیخ احکام دین پر صبر واستقامت کا پیکر ہیں، شمسیی سے دیرہ (مقام ) تک ٹریفک کے شدید ہجوم میں آپ باقاعدگی سے اس مسجد میں لوگوں کو نماز پڑھا نے جاتے ہیں جہاں آپ نے اپنی تعلیم کے بھی مراحل پورے کیے اور 5 بار نمازوں کی ادائیگی کی صورت میں روزانہ جہاد کرتے ہیں، اچانک ہم دیکھتے ہیں کہ یہ نابینا شخص اپنی لاٹھی ٹیکتا ہوا نماز کو جا رہا ہے، اس کے ساتھ اس کی نیلی گاڑی کا ڈرائیورہے اور دائیں بائیں ہاتھ شیخ کا دیرینہ معاون شیخ
|