درخواستیں باری باری پڑھنا شروع کرتے، شیخ صاحب ایک ایک درخواست سنتے اور جواب لکھواتے، سیکرٹری کے جواب لکھنے تک حاضرین میں سے خود کسی سے گفتگو کرتے یا فون پر انتظار کرنے والوں کے جوابات دیتے پھر کچھ دیر کے لیے شیخ اپنے علیحدہ کمرہ میں تشریف لے جاتے، جہاں ان لوگوں سے جو ذاتی مشکلات یا مسائل پیش کرنا چاہتے ہوں، وہاں علیحدہ علیحدہ ان کے معاملات تفصیلی سماعت کر کے مناسب کاروائی فرماتے اور یہ سلسلہ ظہر کی اذان تک جاری رہتا، اذان کے ساتھ ہی مختلف ممالک کے ضرورت مندوں سے بھری یہ مجلس ختم ہوتی اور شیخ صاحب اپنے مہمانوں کے ساتھ محلہ کی مسجد تشریف لے جاتے، نماز باجماعت کے بعد شیخ گھر واپس آکر سنت ادا فرماتے اور پھر دوبارہ مجلس میں تشریف لے آتے اور وہاں اس وقت تک بیٹھتے جب تک کہ دوپہر کا کھانا لگ نہ جاتا۔
دستر خواں تیار ہوتے ہی جس کے لیے مختلف لوگ مدعو ہوتے، شیخ ان کے ساتھ دستر خوان تک تشریف لاتے اور اگر جمعرات کے باعث روزہ سے ہوتے تو کھانے میں شرکت سے معذرت کر کے الگ ہوجاتے ورنہ خود بھی تناول فرماتے، کھانے کے بعد عصر کی اذان کے ساتھ ہی مسجد پہنچتے، عموماً اذان اول وقت میں دی جاتی، نماز کے بعد اپنے محلہ کی مسجد میں ریاض الصالحین یا بلوغ المرام اور کبھی کتاب التوحید کا درس ہوتا، ایک صاحب حدیث پڑھتے اور شیخ محترم ضروری مختصر تشریح کرتے، اس کے بعد موصوف گھر آکر تھوڑی دیر کے لیے آرام فرماتے، اور پھر مغرب کے لیے جامع مسجد پہنچتے جہاں مغرب کے بعدہفتہ واری پروگرام منعقد ہوا کرتا، یہ بڑا اہم دینی اجتماع ہوتا جس میں مختلف اہل علم شرکت کرتے، شیخ محترم کی تواضع اور انکساری ایسے موقعوں پر دیکھنے میں آتی، آپ اس علمی مجلس میں اسٹیج وغیرہ پر بیٹھنے کے بجائے سامعین کے ساتھ ہی بیٹھا کرتے اور ہر خطاب مکمل دلچسپی اور دلجمعی کے ساتھ سنتے اور اختتام پر سوالات کے جوابات دیا کرتے، نیز مقررین کے خطابات کی روشنی میں کسی چیز کی وضاحت یا تصحیح کی ضرورت ہوتی تو آپ فرماتے، آپ کی تنقید بھی بڑی مثبت اور دلچسپ ہواکرتی، پہلے آپ مقررین کے مثبت اور اچھے پہلوؤں کی تعریف کرتے اور انہیں دعائیں
|