ملی۔ جب صدام نے کویت پرقبضہ کرلیااورسعودی شہر خفجی کوہتھیالیا اورحرمین شریفین پراس کی نگاہ تھی۔ اس وقت قرآن وسنت سے دلائل کی روشنی میں شیخ نے کفار سے فوجی تعاون حاصل کرنے کے جواز کافتویٰ دیا تھا۔ یہ امت اسلامیہ پر اورخاص کر کویت اورکویتیوں پرشیخ کا احسان عظیم تھا جس کے لیے سارے کویتیوں کواورامت اسلامیہ کوان کا احسان مندہونا چاہیے اورشیخ کی مغفرت اور رفع درجات کے لیے دعا کرنی چاہیے۔
٭ حرمین کے ائمہ، سعودی یونیورسٹیوں کے اساتذہ، ہیئۃ کبار علماء کے ممبران، رابطہ کے ذمہ داران اورحکومت کے اعیان امراء آل سعود مشائخ کبار اورعالم اسلام کے وجہاء ومفتیان کرام مفکرین عظام حکومتوں کے فرماں روا بلاد عرب کے وزراء امراء حکمران ممبران پارلیامنٹ اور صحافت ومیڈیا سے جڑے متخصصین وماہرین نیز سارے عالم کے علماء اورمسلم قائدین، تنظیمات کے مسؤولین کی یہ عمومی رائے تھی کہ شیخ ابن باز کی وفات کاسانحہ ملت اسلامیہ کے لیے بہت بڑا سانحہ ہے۔ اورعموماً سب نے یہ رائے ظاہر کی کہ شیخ اپنے وقت کے امام سب سے بڑے عالم مفتی، داعی،مجاہد، متقی، مخیر متواضع انسان تھے اورحق کے لیے سب سے زیادہ کوشاں اورملت اسلامیہ کے سب سے بڑے خیرخواہ اورسب سے بڑے حکیم بابصیرت متبع سنت اورعلوم اسلامیہ کے ماہر اور مجتہداورسب سے زیادہ صابر شاکر اورجدوجہد کرنے والے تھے ساری دنیا میں مختلف زبانوں میں میڈیا میں آپ پر جو تحریریں یا خیالات آئے ہیں اگرسب کو اکٹھا کردیا جائے توتفصیلات کئی جلدوں میں آئیں گی ایسے موقع پر خواتین نے آپ کے متعلق جن تاثرات کااظہار کیاہے اورشیخ سے جس تاثر پذیری اورلگاؤ کا مظاہرہ کیاہے اورجس غم کا اظہار کیاہے خاص کر خلیج میں ان کی تحریریں بھی کافی ہیں۔
شیخ کی وفات پرعرب وعجم کے شعراء نے جو مرثیے کہے ہیں۔ وہ بھی کافی مقدار میں ہیں۔ اگرانھیں کومرتب کردیا جائے توایک ضخیم کتاب بن جائے گی۔
ایک قابل ذکربات یہ ہے کہ آل سعود نے امام وقت کی قدردانی، عزت ومحبت میں اپنی
|