ایسے ہی شیخ اس بات کے بھی قائل تھے کہ دوران حیض دی گئی طلاق مؤثر نہیں ہے اور اس کی بنیاد بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول ایک حدیث پر تھی جو کہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے۔
جریدہ الدعوۃ (ریاض ) میں شیخ کے فتاوی شائع ہوتے رہتے ہیں، ان فتاوی کے محرر فہد البکر ان لکھتے ہیں :
’’ چند ماہ قبل ہم نے جریدہ میں ایک فتویٰ شائع کیا اور غلطی سے اس کی نسبت شیخ کی طرف کر دی، اس فتویٰ کے آغاز میں یہ جملہ تھا کہ ’’ مذہب میں یوں کہا گیا ہے۔‘‘
شیخ نے اس پر ہم سے استفسار کیا پھر کہا:
’’ہم یہ نہیں کہتے کہ مذہب میں یوں کہا گیا ہے، بلکہ ہم تو یہ کہتے ہیں کہ اللہ سبحانہ نے یہ کہا ہے، اور اس کے رسول علیہ الصلوۃ والتسلیم نے یوں کہا ہے۔‘‘
اس بات واضح ہوجاتا ہے کہ شیخ فتویٰ دیتے وقت کسی معین مذہب کے پابند نہیں رہتے تھے بلکہ کتاب وسنت کے دلائل کی روشنی میں فتویٰ صادر کیا کرتے تھے، اسی طرح شیخ نے کتابیہ (یعنی یہودی یا عیسائی خاتون) سے چند شرطوں کے ساتھ نکاح کے جواز کا فتویٰ دیا تو ایک طالب علم نے کہا کہ بعض صحابہ ایسے نکاح کو جائز قرار نہیں دیتے۔
[1]
|