شیخ ابن باز انیس سال کی عمر میں اپنی بینائی کھوبیٹھے لیکن اللہ تعالی نے انہیں ایسی بصیرت سے نوازا کہ جس پر ہزاروں بصارتیں قربان ہوں، ان کی زندگی کے وہ گوشے کہ جن کا میں شاہد رہا یا ان کے دوست احباب کے توسط سے علم میں آئے، اس مضمون میں پیش کرنے کی جسارت کر رہا ہوں، شیح نے دیار نجد کا وہ زمانہ پایا جس میں شیخ محمد بن عبدالوہاب رحمہ اللہ کی تحریک توحید کے اثرات پوری طرح جڑپکڑ چکے تھے اور سر زمین عرب سے تمام بدعات کا قلع قمع ہو چکا تھا، شیخ نے خالص توحید کے بیج کو اپنے سینہ میں سمو لیا اور ساری عمر اس کی وکالت کرتے رہے، گوانہوں نے فقہ حنبلی میں تفقہ حاصل کیا تھا، لیکن اس بات کو انہوں نے قولاً اور فعلاً واضح کرکے دکھا یا کہ وہ مسائل کی تحقیق میں کتاب وسنت اور تعامل صحابہ کو معیار اور حجت مانتے ہیں، یہی وجہ تھی کہ انہوں نے طلاق ثلاثہ (یعنی ایک ہی مجلس میں مرد کا تین دفعہ طلاق کہنا) کے مسئلہ پر معاصر علماء کی رائے سے اختلاف کیا اور اس رائے کا بر ملا اظہار کیا کہ ایک وقت میں دی گئی تین طلاقیں ایک ہی شمار ہوتی ہیں، جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں معروف تھا اور جس کی تائید میں امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ اور امام ابن قیم رحمہ اللہ نے دلائل کا انبار لگا دیے ہیں،
[1]
|