کر کے شریک درس ہوا کرتے تھے، میرے دوست علامہ احسان الٰہی ظہیر رحمہ اللہ کو آپ کا داماد ہونے کا شرف بھی حاصل تھا، آخری عمر میں حافظ صاحب کی سماعت بصارت کمزور اور قوی مضمحل ہوگئے تھے، ورنہ آپ کی یاداشت بھی کسی سے کم نہ تھی:
الالیت الشباب یعود یوما
فاخبرہ بما فعل المشیب
(کسی دن جوانی لوٹ کے آئے تو بڑھاپے نے جو بگاڑ کیا اس سے پوری طرح باخبر کروں گا)
1963ء کی بات ہے، ڈاکٹر ذاکر حسین صاحب ہندوستان کے نائب صدر کی حیثیت سے تشریف لائے، اعزاز میں اجلاس ہوا، شیخ نے استقبالیہ میں مسلمانوں کے مسائل کی طرف توجہ دلائی اور آگاہ کیا کہ ایسے کلیدی عہدوں پر آنے کے بعد ذمہ داریاں بڑھ جاتی ہیں، ذرا بھی غفلت ہوئی تو اللہ کے ہاں بڑی گرفت ہوگی، آپ کو اپنے عہدے سے بڑھ کر مسلمانوں کے تحفظ اور سلامتی کا خیال رکھنا چاہیے وغیرہ وغیرہ، جواب میں ذاکر صاحب نے بڑی جلالی تقریرکی کہ آپ لوگ گوشہ ء عافیت میں بیٹھ کر سب کو ایسا ہی خیال کر تے ہیں، ہندوستان مختلف قوموں، مذہبوں اور تہذیبوں کا ملک ہے، وہاں کا نظام سیاست آپ کے ملک سے مختلف ہے، یہاں آپ رحماء بینہم اشداء علی الکفار کہہ سکتے ہیں، مگر ہمارے ملک میں اس کا الٹا ہو تبھی بات بنے گی، مزید آپ بہت کچھ اپنی رو میں کہتے چلے گئے، ہم ہندوستانی طلبہ کو چپ لگ گئی کیونکہ ہماری ہی تحریک اور خواہش پر یہ اجلاس منعقد ہوا تھا، پاکستانی اور دیگر اردو دان حضرات مڑ مڑ کر ہماری طرف دیکھ رہے تھے اور ہم نگاہیں نیچی کیے زمین دیکھ رہے تھے، اللہ بھلا کرے خالد سیف اللہ صاحب کا جو عرصہ دراز سے جدہ میں ہندوستان سفارتخانے میں مترجم تھے، ڈاکٹر صاحب کی تقریر کا عربی میں ترجمہ کیا تو کچھ باتوں کو حذف کردیا اور کہیں کہیں خوشگوار تصرف سے کام لیا تو بات بن گئی اور ہم نے آپس میں سرگوشیاں کیں، رسیدہ بود بلائے ولے بخیر گزشت، مگر یہ صرف ہماری تسلی تھی، کیونکہ
|