واتباع اور سلف صالحین، ائمہ ومحدثین سے لے کر آج تک ایسے بے شمار حادثے برداشت کیے، ہمارے مربی ومعلم سماحۃ الشیخ ابن باز کی وفات بھی ایک ایسا ہی حادثہ ہے جس کی تلافی محال ہے، موصوف سے میری تقریباً اٹھا رہ سال ملاقات تھی، یہ 1402 ہجری رجب کا مہینہ تھا جب شیخ موسی عسیری اس وقت کے امام مسجد الیحییٰ نے ناچیز کا تعارف عالم اسلام کی عظیم شخصیت ابن باز رحمہ اللہ سے کرایا، بڑی محبت وپیار سے خوش آمدید کہا، تو فیق ونجاح کی دعائیں دیں اور اپنی کوٹھی میں اپنے ساتھ رہائش کی پیش کش کی، اس طرح دین دنیا کی سعادتوں سے بھر پور اس بندہ عاصی کا آپ کے ساتھ روحانی سفر شروع ہوا، اور بعض احباب کے تعاون اور اللہ کے فضل وکرم سے علم وفن، اخلاق وآداب، عمل وجہاد کے اس عظیم پیکر سے استفادے کا موقع میسر آگیا تھا اس وقت سے لے کر آخردم تک موصوف نے اتنی محبت اتنے خلوص اور اتنے پیار سے نوازا کہ آج ہر قدم ہر لمحہ ان کی جدائی پر بڑا شاق گزرتا ہے، زبان وقلم صدمے سے نڈھال ہیں، لیکن یہ صدمہ وغم تنہا میرا تو نہیں ساری امت کا غم ہے وہ ساری امت سے ہی ایسی محبت رکھتے تھے اور سب کے ہی ہمدرد وغمگسار تھے، اسی لیے تو آپ کو فقید
[1]
|