کے بندوں تک ویب سائٹ اور انٹر نیٹ کے ذریعے پہنچانا ہے۔ کیونکہ حالات حاضرہ کا یہی تقاضا ہے، پیردانا اور اس پر نابینا کا یہ خیال محض کوئی تمنا و خواہش نہیں اور بزرگ محترم کسی ادارے کو اس امر کا مشورہ نہیں دے رہے ہیں بلکہ جذبہ شوق یہ ہے کہ وہ خود ہی یہ کار خیر انجام دیں گے، البتہ دوسرے اصحاب خیر سے اس کام میں تعاون حاصل کریں گے، عزم وارادہ یہ کہ انٹرنیٹ اور ویب سائٹ پر اسلامی تعلیمات کو عام فہم انداز میں پیش کریں گے، مختلف امور پر جاری کیے جانے والے فتاویٰ اور مختلف موضوعات پر لکھے گئے مقالات کو محفوظ کریں گے، عقائد واعمال اور احکام شریعت سے متعلق سوالات کے جوابات دیں گے، شیخ کے اعلان وبیان سے یہ حقیقت عیاں ہو رہی ہے کہ شیخ کو اللہ تعالیٰ نے دل درد مند اور فکر ارجمند سے بہرہ ور کیا تھا اور شیخ غیر معمولی حوصلہ رکھنے والے بزرگ تھے، پیرانہ سالی میں بھی دعوت اسلامی کی نشر واشاعت کے لیے اپنے دل میں زبردست تڑپ رکھتے تھے، اعلائے کلمۃ اللہ کے لیے بے چین وبے قرار رہتے تھے، اس سلسلہ میں غور وفکر کرتے رہتے تھے، شیخ نے دعوت وتبلیغ اور اصلاح امت کے بارے میں جو سوچا تھا اور اپنی بساط ووسعت سے زیادہ جو کرنا چاہاتھا وقت موعود آجانے کی وجہ سے اگر چہ وہ کام شیخ نہیں کرسکے لیکن حسنات وخیرات سے لبریز اعمال نامے کے ساتھ اپنی آخری خواہش وتمنا کے اجر وثواب سے بھی وہ محروم نہیں رہیں گے، کیونکہ فیصلہ تو وہ کر ہی چکے تھے، عمل در آمد کا موقع انہیں نہیں مل سکا۔ ایسی ہی صورت حال کے بارے میں کہا گیا ہے:
’’ بعض حالات میں آدمی کی نیت ہی اس کے عمل سے زیادہ بہتر ثابت ہوتی ہے۔‘‘
شیخ ابن باز کے اس عزم وارادے سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک ارشاد بھی ذہن میں تازہ ہو گیا کہ کسی کو اندازہ ہو جائے کہ اس کا آخری وقت آگیا ہے یا کسی کو معلوم ہو جائے کہ اب قیامت آنے والی ہے، ایسی ناز ک گھڑی میں اسے زمین میں ایک پودا بونے کا موقع مل رہا ہے تو اسے موقع سے فائدہ اٹھا کر پودا زمین میں بودینا چاہیے، شیخ کے طرز عمل سے شاہ نوشیرواں کا ایک واقعہ بھی یاد آگیا کہ بادشاہ اپنے خدام وحشم کے ساتھ کہیں سفر پر جارہا تھا کہ
|