افریقہ، بلکہ پورے عالم اسلام تک وسیع تھا، پوری دنیا سے لوگ کشاں کشاں، والہانہ وار فتگی اور نہایت ذوق وشوق کے ساتھ شیخ کی زیارت کے لے حاضر ہوتے اور ان کی زیارت سے مشرف ہو کر شاداں وفرحاں واپس لوٹتے۔
راقم کو بھی ایک مرتبہ ریاض میں ان کی رہائش گاہ پر ملاقات کے اس منظر کا مشاہدہ کرنے کی سعادت حاصل ہوئی ہے، اہل علم وفضل کا ایک جم غفیر تھا جو مختلف ملکوں اور علاقوں کے افراد پر مشتمل تھا، حضرت الشیخ نے نہ صرف سب کو شرف زیارت بخشا بلکہ ہر شخص نے فرداً فرداً ملاقات، جہہ بوسی اور مصافحہ کرنے کی سعادت حاصل کی، شیخ ہر ایک سے خیریت اور ملک کا نام پوچھتے، کوئی شناسا ہوتا تو دیگر حالات و کوائف بھی معلوم کرتے، آخر میں سب کی قہوے کے ساتھ ضیافت کی جاتی یا کھانے کے اوقات میں شیخ اپنے ساتھ کھانے کے بڑے دستر خواں پر شرکت فرماتے، افراد وفود کی آمد اور ملاقات کا یہ سلسلہ بھی ایک مستقل سلسلہ تھا، لوگ اتنی کثرت اور ذوق و شوق کے ساتھ بادشاہوں کے پاس بھی نہ جاتے ہوں گے جتنی کثرت اور اپنائیت کے ساتھ لوگ شیخ کی زیارت اور جہہ بوسی کے لیے حاضر ہوتے تھے۔
بہر حال شیخ کی خوبیاں اور کمالات اتنے متنوع اور زیادہ ہیں کہ مجھ جیسا ہیچ مداں انہیں بیان کرنے پر قادر نہیں، اللہ تعالیٰ نے انہیں مجموعہ، خصائل حمیدہ، گنجینہ گائقہ اور گونا گو مناقب ومحامد کا حامل بنا یا....
ولیس للّٰہ بمستنکر
أن یجمع العالم فی واحد
’’اللہ کے لیے کوئی مشکل نہیں کہ کسی شخص میں ایک دنیا جلوہ گر فرمادے۔‘‘
ان کی وفات یقیناً عالم اسلام کے لیے ایک سانحہ عظیم ہے، ان کی وفات سے عالم اسلام ایک بطل جلیل، قائد عظیم، فقیہ ومحدث، متکلم ومفکر، مرشد ومربی، مشفق ومہربان باپ اور خیر خواہ عظیم راہنما سے محروم ہوگیا ہے۔
فانا للّٰہ وانا الیہ راجعون
|