Maktaba Wahhabi

77 - 277
اب ہم پہلی دلیل کے جواب سے بہمہ وجوہ فارغ ہو چکے ۔فللّٰہ الحمد قال:’’دوسری دلیل ۔ حجۃ الوداع کی نویں ذی الحجہ کو کہ روزِ جمعہ تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بمقام عرفات وقوف فرمایا۔ حدیثوںسے ثابت ہے کہ وہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نمازِ ظہر ادا فرمائی۔ چنانچہ صحیح مسلم میں ہے۔ ثم اقام فصلی الظھر ثم اقام فصلی العصر اور بیہقی رحمۃ اللہ علیہ نے معرفۃ السنن والآثار میں لکھا ہے۔ قدر وینا عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم انہ یوم عرفۃ جمع ببین الظھر والعصر ثم راح الی الموقف وکان ذلک یوم جمعۃ انتھی۔ اگرچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر نمازِ جمعہ وہاں بوجہ مسافرت فرض نہ تھی،مگر اہلِ مکہ پر نمازِ جمعہ فرض تھی۔ پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اہلِ مکہ کا ترکِ نمازِ جمعہ کرنا صاف اس پر دال ہے۔ کہ غیر آبادی کی وجہ سے مقامِ عرفات محل نمازِ جمعہ نہ تھا۔ چنانچہ شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ مصفی میں لکھتے ہیں: کہ باآنحضرت صلعم جمعے کثیر از اہل مکہ درعرفہ بودند ایشاںں رابجمعہ نفر مودند و سفر اگر عدم ثحتم درحن آنحضرت واہل مدینہ میتواند شدد رحق اہل مکہ علت نمے قواند الا بودن ایشان درصحرا۔ پس اس واقعہ سے بھی یہ دعویٰ کہ نمازِ جمعہ شہر ہو یا قریہ یا کوئی اور مقام ہر جگہ فرض ہے۔ صاف باطل ہے۔ انتھی اقول :اس دلیل کے دو جواب ہیں۔ ایک اجمالی ،دوسرا تفصیلی اجمالی جواب بلاشبہ نویں ذی الحجہ کو صحرائی عرفات محل نمازِ جمعہ نہیں ہے،مگر اس سے کسی اور صحرا کا محل نمازِ جمعہ نہ ہونا لازم نہیںآتا ۔ نظیر اس کی جمع بین الصلوٰتین ہے۔ دیکھو حنفیہ کے
Flag Counter