((الَّذِينَ يَتَّبِعُونَ الرَّسُولَ النَّبِيَّ الْأُمِّيَّ الَّذِي يَجِدُونَهُ مَكْتُوبًا عِندَهُمْ فِي التَّوْرَاةِ وَالْإِنجِيلِ يَأْمُرُهُم بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَاهُمْ عَنِ الْمُنكَرِ وَيُحِلُّ لَهُمُ الطَّيِّبَاتِ وَيُحَرِّمُ عَلَيْهِمُ الْخَبَائِثَ وَيَضَعُ عَنْهُمْ إِصْرَهُمْ وَالْأَغْلَالَ الَّتِي كَانَتْ عَلَيْهِمْ)) [الأعراف:157]
’’ یعنی میں اپنی جنت اُن کے لیے لکھ دوں گا جو ہمارے رسول نبی اُمی کا اتباع کریں گے جن کا ذکر وہ اپنی تورات وانجیل میں لکھا ہوا پاتے ہیں ، جو لوگوں کو بھلائی کا حکم دیتے ہیں اور بُرائی سے روکتے ہیں۔ اور ان کے لیے پاکیزہ چیزوں کو حلال کرتے ہیں، اور خبیث اور گندی چیزوں کو حرام کرتے ہیں۔ اور اُن بارہائے گراں اور بندشوں کو ان سے ہٹاتے ہیں، جن میں وہ پہلے سے جکڑے ہوئے تھے ۔‘‘
آیت کے آخر میں صراحت کردی گئی ہے کہ پوری انسانیت مصیبتوں اور بربادیوں کے انبار تلے سِسک رہی تھی اور تمام کے ہاتھ اور پاؤں زنجیروں میں جکڑ دیئے گئے تھے ، اس وقت محمد بن عبداللہ ہاشمی صلی اللہ علیہ وسلم رحمۃ للعالمین بن کر مبعوث ہوئے اور پوری دنیائے انسانیت کو ہرقسم کی بیڑیوں اور بندشوں سے آزاد کرایا۔
اسی مضمون کو ایک صحیح حدیث میں بیان کیا گیا ہے جسے امّ المؤمنین سیّدہ امّ سلمہ رضی اللہ عنھا نے ہجرتِ حبشہ کے واقعہ کے ضمن میں بیان کیا ہے، جب سیّدنا جعفر بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے نجاشی کے سامنے تقریر کرتے ہوئے کہا تھا: ’’اے بادشاہ! ہم جاہلیت کی تاریکیوں میں ڈوبی ہوئی ایک قوم تھے، بتوں کی پرستش کرتے تھے، مردہ جانور کھاتے تھے، فسق وفجور کا ارتکاب کرتے تھے، قطع رحمی کرتے تھے، پڑوسیوں کو ایذاء پہنچاتے تھے ، اور ہمارا طاقتور کمزور کو کھاجاتا تھا۔ ہم اسی حال میں تھے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمارے درمیان سے اپنا ایک رسول بھیجا جس کے حسب ونسب، سچائی، امانت اور عفت وپاکدامنی کو ہم خوب جانتے ہیں۔ انہوں نے ہمیں اللہ کی طرف بلایا، تاکہ ہم اس کو ایک جانیں اور صرف اسی کی عبادت کریں، اور ان تمام پتھروں اور بُتوں کو چھوڑ دیں، جن کی ہم اور ہمارے آباء واجداد پہلے سے پرستش کرتے تھے۔ انہوں نے ہمیں سچی بات، ادائیگیِ امانت، صلہ رحمی، حسنِ جوار ، اور لوگوں کی عزتوں او ران کے خون کی حفاظت کا حکم دیااور فحش وبدکاری، جھوٹ ، یتیم کا مال کھانے، اور پاکدامن عورتوں پر تہمت لگانے سے منع فرمایا۔‘‘ [1]
****
|