Maktaba Wahhabi

93 - 242
اس سے معلوم ہوا کہ اﷲ تعالیٰ کے یہ اسماء اور صفات صرف اسی کے لئے خاص ہیں اور اسی کے لئے سزاوار ہیں اور بندوں کے جو نام اور صفات ہیں جو ان کے لائق اور ان کے لئے خاص ہیں، نام اور معنیٰ میں مشترک ہونا حقیقی اشتراک کے لئے لازم نہیں، اسلئے کہ خالق اور مخلوق کے ناموں اور صفتوں میں کوئی مماثلت ہی نہیں، اور یہ الحمد ﷲ بالکل ظاہر ہے ۔ ۳)جو صفاتِ کاملہ کا حامل نہیں وہ معبود بھی نہیں بن سکتا، اور اسی لئے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے باپ آذر سے کہا تھا :﴿ إِذْ قَالَ لِاَبِیْہِ یَآ اَبَتِ لِمَا تَعْبُدُ مَا لَایَسْمَعُ وَلَایُبْصِرُ وَلَا یُغْنِیْ عَنْکَ شَیْئًا﴾ ( مریم : 42) ترجمہ : جب انہوں نے اپنے باپ سے کہا : اے ابّا ! آپ ایسے کی عبادت کیوں کرتے ہیں جو نہ سنتا ہے اور نہ دیکھتا ہے اور نہ آپ کے کسی کام آسکتا ہے ۔ اور اﷲ تعالیٰ نے بچھڑے کی پرستش کرنے والوں کی تردید کرتے ہوئے فرمایا : ﴿ اَوَلَمْ یَرَوْا اَنَّہٗ لَا یُکَلِّمُہُمْ وَلَا یَہْدِیْہِمْ سَبِیْلًا ﴾ ( الأعراف :148) ترجمہ :کیا ان لوگوں نے غور نہیں کیا کہ وہ ان سے نہ باتیں کرتا ہے اور نہ ہی ان کی رہنمائی کرتا ہے ۔ صفات کا ہونا کمال کی علامت ہے اور ان کا نہ ہونا نقص ہے، جس کی کوئی صفت نہیں یا تو اس کا وجود ہی نہیں ہے یا اس میں کوئی نقص ہے،اور اﷲ تعالیٰ اس طرح کے عیوب سے پاک ہے ۔ ۵)اﷲ کے صفات کے ظاہری معنی کو چھوڑ کر ان کی تاویل کرنا غلط ہے اور اس کی کوئی دلیل نہیں ہے، نیز صفات کے معانی کو اﷲ تعالیٰ کے سپرد کردینے کا مطلب یہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ہمیں ایسے الفاظ سے مخاطب کیا ہے جس کے معانی ہم سمجھ نہیں
Flag Counter