رُعب اور محبت ڈالا تھا کہ تمام انسانوں میں، رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ محبوب،با رُعب، اور موقر، صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم کے دلوں میں اور کوئی نہیں تھا ۔ اسی لئے حضرت عمرو بن العاص رضی اﷲ عنہ نے اسلام لانے کے بعد کہا تھا :
میرے نزدیک آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ اور کوئی مبغوض نہیں تھا، لیکن جب میں مسلمان ہوا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ میرے نزدیک اور کوئی محبوب، اور میری نظروں میں آپ سے زیادہ اور کوئی مؤقر ومحترم نہیں تھا، پھر فرماتے ہیں : اگر تم مجھ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شخصیت کے متعلق کچھ دریافت کروگے تو میں تمہیں کچھ بیان نہیں کرسکتا، اس لئے کہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی توقیر اور اجلال کی وجہ سے، آپ کو کبھی نظر بھر دیکھ نہیں سکا ۔
حضرت عروہ بن مسعود رضی اﷲ عنہ نے ( اپنے اسلام لانے سے قبل )قریش سے کہا تھا :
اے میرے قوم ! میں کسریٰ، قیصر اور دیگر بادشاہوں کے دربار میں گیا ہوں، لیکن کسی بادشاہ کو میں نے اپنے اصحاب میں اس قدر معظم ومحترم نہیں دیکھا جتنا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ساتھیوں میں ہیں، اﷲ کی قسم ! وہ انہیں ادب وتعظیم کی وجہ سے نظر بھر کر نہیں دیکھتے، وہ جب تھوکتے ہیں تو ان کے ساتھی اس تھوک کو ( زمین پر گرنے نہیں دیتے، بلکہ )اپنے چہرے اور سینے پر مل لیتے ہیں، اور جب وہ وضو کرتے ہیں تو وہ ان کے وضو کے پانی کو حاصل کرنے کے لئے لڑ پڑنے کے قریب ہوتے ہیں ۔( جلاء الأفہام : 120۔121)
۲۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعریف میں غلو اور حد سے آگے بڑھنے کی ممانعت
غلو : حد سے آگے بڑھ جانے کو کہتے ہیں، غَلَا غُلُوًّا، اس وقت کہا جاتا ہے جب کوئی شخص کسی کی قدر دانی میں حد سے آگے بڑھ جائے، جیسا کہ فرمانِ الٰہی ہے : ﴿ یَآ اَھْلَ الْکِتَابِ لاَتَغْلُوْا فِیْ دِیْنِکُمْ ﴾(النساء :171)
|