زکاۃ، روزہ، حج، جہاد،نیکیوں کا حکم، برائیوں سے روکنا،رشتہ داروں، یتیموں، مسکینوں، مسافروں کے ساتھ حُسنِ سلوک سے پیش آنا، اسی طرح اﷲ اور اسکے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت، اﷲ کی خشیت اور اسکی طرف رجوع، دین کو اس کیلئے خالص کرنا،اسکے احکام کی بجا آوری پر صبر، اسکے فیصلوں پر رضامندی، اسی پر توکل، اسکی رحمت سے امید، اسکے عذاب سے خوف، یعنی عبادت مومن کے ہر اس عمل کو شامل کرلیتی ہے جسکے ذریعے سے وہ اﷲ تعالیٰ کا قُرب، یا اس قُرب کے حصول میں معاون بننے والی کسی چیز کا قصد کرتا ہے، حتی کہ فطری عادات واطوار جیسے،سونا، کھانا پینا،خرید وفروخت، طلبِ معاش، نکاح وغیرہ عادات واطوار بھی عبادات کا مقام حاصل کرلیتی ہیں، جب بندہ انہیں نیک نیتی اور اطاعت میں تقویٰ اختیار کرتے ہوئے سر انجام دیتا ہے، اس پر اسے ثواب ملتا ہے ۔ عبادت صرف چند مشہور شعائر میں ہی محدود نہیں ہے ۔
پانچویں فصل
عبادت کی تحدید میں غلط مفہوم کے بارے میں
تمام عبادات توقیفی ہیں ( یعنی عبادات میں اجتہاد نا جائز ہے )عبادت صرف کتاب وسنت کی دلیل ہی سے مشروع ہوتی ہے، جو مشروع نہیں وہ مردود بدعت شمار ہوگی ۔ جیسا کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :" مَنْ عَمِلَ عَمَلًا لَیْسَ عَلَیْہِ أَمْرُنَا فَہُوَ رَدٌّ " ( متفق علیہ )جس نے کوئی ایسا عمل کیا، جس کے متعلق ہمارا کوئی حکم نہیں ہے، وہ مردود ہے ۔ یعنی اس کا عمل قبول نہیں کیا جائے گا، اسی پر لوٹا دیا جائے گا بلکہ وہ گناہ گار ہوگا ۔ اس لئے کہ وہ اطاعت نہیں،نافرمانی ہے ۔اس لئے کہ مشروع عبادات کی ادائیگی میں سلامتی کا راستہ غفلت اور سستی اور غلو اور تشدّد کے درمیان کا ہے، جیسا کہ اﷲ تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایا : ﴿ فَاسْتَقِمْ کَمَا اُمِرْتَ وَ مَنْ تَابَ مَعَکَ وَلَا تَطْغَوْا﴾ ( ھود : 112)ترجمہ : آپ کو جیسا حکم دیا گیا ہے، راہِ حق پر قائم رہئے، اور وہ لوگ بھی جنہوں نے آپ کے
|