چھٹی فصل
صحابہ کرام اور أئمّہء کرام کو برا بھلا کہنے کی ممانعت
۱۔صحابہ کرام کو برا کہنے کی ممانعت :
اہل سنت والجماعت کے اصولوں میں سے ایک اہم اصول یہ ہے کہ ان کے دل اور زبانیں رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کے متعلق محفوظ ہوں، جیسا کہ اﷲ تعالیٰ نے اپنے اس ارشاد میں ان کا یہ وصف ذکر کرتے ہوئے فرمایا :
﴿ وَالَّذِیْنَ جَآئُ وا مِن م بَعْدِہِمْ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَا اغْفِرْلَنَا وَلِاِخْوَانِنَا الَّذِیْنَ سَبَقُوْنَا بِالْاِیْمَانِ وَلَا تَجْعَلْ فِیْ قُلُوْبِنَا غِلًّا لِلَّذِیْنَ آمَنُوْا رَبَّنَآ اِنَّکَ رَئُ وْفٌ رَّحِیْمٌ ﴾ ( الحشر :10)
ترجمہ : اور ان لوگوں کے لئے بھی جو ان (مہاجرین )کے بعد آئے اور ( دعا کرتے ہوئے)کہتے ہیں : اے ہمارے رب ! ہمیں معاف کردے اور ہمارے ان بھائیوں کو بھی جو ہم سے پہلے ایمان لاچکے ہیں، اور ہمارے دلوں میں ایمان والوں کیلئے کینہ نہ پیدا کر، اے ہمارے رب ! یقینًا تو بڑی شفقت والا،بے حد رحم کرنے والا ہے ۔
اہلِ سنت، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان پر عمل پیرا ہیں :
’’ لَا تَسُبُّوْ أَصْحَابِیْ، فَوَالَّذِیْ نَفْسِیْ بِیَدِہِ لَوْ أَنَّ أَحَدَکُمْ أَنْفَقَ مِثْلَ أُحُدٍ ذَھَبًا مَا بَلَغَ مُدَّ أَحَدِہِمْ وَلَا نَصِیْفَہُ ‘‘ (متفق علیہ )
ترجمہ : میرے ساتھیوں کو گالیاں مت دینا، اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ! اگر تم میں سے کوئی شخص اُحد پہاڑ کے برابر سونا خرچ کرے تو وہ نہ ان کے ایک مُدّ کے برابر ہوسکتا ہے اور نہ آدھے مُدّ کے برابر ‘‘
اور اہلِ سنت، روافض اور خوارج کی روش سے اعلانِ براء ت کرتے ہیں جو صحابہ
|