کو احکام دئے جائیں اور انہیں کچھ چیزوں سے روکا جائے، ان میں بھلائی کرنے والوں کو بھلا بدلہ دیا جائے اور برائی کرنے والوں کو اس کی برائی کا مزہ چکھایا جائے ۔
لفظِ ’’ رب ‘‘کا مفہوم، گمراہ امّتوں کے تصوّرمیں
اﷲ تعالیٰ نے مخلوق کو فطرتِ توحید، اور اپنے رب اور خالق کی پہچان پر پیدا کیا ہے،جیسا کہ ارشادِ الٰہی ہے : ﴿ فَاَقِمْ وَجْھَکَ لِلدِّیْنِ حَنِیْفًا ط فِطْرَۃَ اللّٰہِ الَّتِیْ فَطَرَ النَّاسَ عَلَیْھَاط لاَ تَبْدِیْلَ لِخَلْقِ اللّٰہِ ﴾ (الروم :31)ترجمہ :پس آپ یکسُو ہوکر اپنے چہرے کو دین کی طرف کردیں، اللہ کی فطرت وہ ہے جس پر اس نے لوگوں کو پیدا کیا ‘ اﷲ کی بناوٹ بدل نہیں سکتی ۔
نیز فرمانِ الٰہی ہے :﴿وَاِذْ اَخَذَ رَبُّکَ مِنْ بَنِیْ آدَمَ مِنْ ظُھُوْرِہِمْ ذُرِّیَتَہُمْ وَاَشْہَدَہُمْ عَلٰی اَنْفُسِہِمْ اَلَسْتُ بِرَبِّکُمْ قَالُوْا بَلٰی شَہِدْنَا ﴾(الأعراف :172) ترجمہ : جب آپ کے رب نے بنی آدم کی اولاد کو ان کی پشت سے نکالا، اور انہیں انہی کے بارے میں گواہ بنا کر پوچھا کہ : کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں ؟تو انہوں نے کہا : ہاں ہم اس کی گواہی دیتے ہیں ‘‘
انسان کے لئے اﷲ تعالیٰ کے رب ہونے کا اقرار کرنا اور مصائب میں اس کی طرف متوجہ ہونا فطری بات ہے،جب کہ شرک نیا اور ہنگامی حال ہے، جیسا کہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے :"کُلُّ مَوْلُوْدٍ یُوْلَدُ عَلَی الْفِطْرَۃِ فَاَبَوَاہُ یُہَوِّدَانِہٖ اَوْ یُنَصِّرَانِہٖ أَوْ یُمَجِّسَانِہٖ"(متفق علیہ)
ترجمہ : ’’ہر پیدا ہونے والا فطرت ( فطرت سے مراد تمام سلف صالحین اور اہلِ علم کے نزدیک اسلام ہے)پر پیدا ہوتا ہے لیکن اسکے ماں باپ اُسے یہودی یا عیسائی یا مجوسی بنا دیتے ہیں ‘‘
|