فاعل کے لئے مستعار مصدر ہے، جب مطلق طور پر ’’رب ‘‘ صرف اﷲ تعالیٰ کو ہی کہا جائے گا، جو تمام مخلوق کا کفیل اور ذمّہ دار ہے ۔ جیسا کہ ارشادِ باری ہے : ﴿ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ﴾ (الفاتحۃ : 2) ﴿رَبُّکُمْ وَرَبُّ آبَآئِ کُمُ الْاَوَّلِیْنَ﴾ (الشعراء : 26)
ترجمہ : وہ تمہارا رب،اور تمہارے گذرے ہوئے باپ دادا کا رب ہے ۔
اگر اس کے علاوہ کسی کو رب بھی کہا جائے گا تو ایک محدود نسبت سے کہا جائے گا، جیسا کہ کہا جاتا ہے : رَبُّ الدَّارِ : گھر کا مالک ۔ رَبُّ الْفَرْسِ : یعنی گھوڑے کا مالک ۔ اور حضرت یوسف علیہ السلام کے متعلق اﷲ تعالیٰ نے جو بیان فرمایا ہے : ﴿ اُذْکُرْ نِیْ عِنْدَ رَبِّکَ فَاَنْسٰہُ الشَّیْطَانُ ذِکْرَ رَبِّہٖ ﴾( یوسف :42 )ترجمہ : (جس کے بارے میں ان کا خیال تھا کہ وہ نجات پاجائے گا )اس سے کہا کہ اپنے بادشاہ سے میرے بارے میں بات کرنا، لیکن شیطان نے اس کے دماغ سے یہ بات بھلادی کہ بادشاہ کے سامنے ان کا تذکرہ کرتا ۔﴿ قَالَ ارْجِعْ اِلٰی رَبِّکَ ﴾ (یوسف : 50) ترجمہ : تو انہوں نے کہا : تم اپنے بادشاہ کے پاس جاؤ ۔ ۔نیز فرمانِ تعالیٰ ہے :
﴿ اَمَّا اَحَدُکُمَا فَیَسْقِیْ رَبَّہٗ خَمْرًا ﴾ (یوسف : 41 )
ترجمہ : تم میں سے ایک اپنے بادشاہ کو شراب پلائے گا ۔
اور رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے گمشدہ اونٹ کے متعلق فرمایا :" حَتّٰی یَجِدَھَا رَبُّہَا" (متفق علیہ) ’’یہاں تک کہ اسے اس کا مالک پالے گا‘‘
﴿ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ ﴾ کا معنی یہ ہے کہ : ان کا خالق اور مالک، ان کی اصلاح کرنے والا اور اپنی نعمتوں سے، اپنے پیغمبروں کو بھیج کر، اور اپنی کتابیں نازل کرکے ان کی تربیت کرنے والا، اور ان کے اعمال کا بدلہ دینے والا ۔
علامہ إبن القیّم رحمہ اﷲ فرماتے ہیں :’’ ربوبیت اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ بندوں
|