Maktaba Wahhabi

49 - 242
ہوتی اور اس کے بھی کچھ قابلِ قدر کام ہوتے، ایسے عالم میں وہ ہرگز نہیں راضی ہوگا کہ اس کے ان کاموں میں کوئی دوسرا معبود شریک ہو، بلکہ اگر اس کا بس چلے تو بزورِ بازو اس کو زیر کرلے اوراپنی سلطنت اور خدائی میں اس سے ممتاز ہوجائے ۔جس طرح کہ دنیا کے بادشاہ ایک دوسرے سے اپنی سلطنت میں منفرد وممتاز ہوتے ہیں،جس کے سبب یہ دنیا انتشار کا شکار ہوتی رہتی ہے ۔ تو پھر ان تین باتوں میں سے کوئی ایک ضرور ہوکر رہے گی : ۱)ان میں سے ایک دوسرے کو زیر کرے، اور اس سے بادشاہت میں ممتاز ہوجائے ۔پھر یہ کائنات انتشار کا شکار ہوجائے گی ۔ ۲)یا ان میں سے ہر ایک اپنی بادشاہت اور تخلیقات سے ممتاز ہو ۔ پھربھی کائنات کا انتشار ضروری ہوگیا ج)یا وہ تمام ایک بادشاہ کے ماتحت ہوں جو ان میں جیسے چاہے تصرّف کا اختیار رکھتا ہو، اور وہی معبودِ برحق ہو اور تمام اس کے غلام ہوں ۔ اور یہی حقیقت ہے، اس لئے کہ نہ یہ دنیا پھوٹ کا شکار ہوئی ہے اور نہ اس میں کوئی خلل واقع ہوا ہے، جو اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ اس کائنات کا مدبّر ایک ہے جس میں اس کا کوئی حریف نہیں ۔ اور اس کا مالک ایک ہے جس میں اس کا کوئی شریک نہیں ۔ ۳۔ مخلوقات کو اپنی خدمات سر انجام دینے پر لگانا : اس کائنات میں کوئی ایسی مخلوق نہیں ہے جو اپنی خدمات سر انجام دینے سے انکار کردے، اسی سے استدلال کرتے ہوئے حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرعون کے سوال:﴿ قَالَ فَمَنْ رَبُّکُمَا یٰمُوْسٰی ﴾ ترجمہ : فرعون نے پوچھا: اے موسیٰ تم دونوں کا رب کون ہے ؟کا نہایت ہی تشفی بخش جواب دیتے ہوئے کہا تھا : ﴿ رَبُّنَاالَّذِیْ اَعْطٰی کُلَّ شَیْ ئٍ خَلْقَہُ ثُمَّ ہَدٰی ﴾
Flag Counter