وَالْاَرْضَ بَلْ لَا یُوْقِنُوْنَ﴾( الطور : 35۔36) ترجمہ :کیا وہ بغیر کسی خالق کے پیدا ہوگئے، یا انہوں نے خود ہے اپنے آپ کو پیدا کرلیا ہے ؟ کیا آسمانوں اور زمین کو انہوں نے پیدا کیا ہے ؟بلکہ وہ یقین کی دولت سے محروم ہیں ۔
اگر آپ اس ساری دنیا پر، اس کی بلندیوں اور پستیوں اوراس کے تمام اجزاء پر غور کریں گے تو سب کے سب اپنے بنانے والے، کاری گری کرنے والے مالک کی گواہی دیں گے، عقل اور فطرت کے نزدیک اس کے بنانے والے کا انکار، علم کے انکار کے برابر ہے، ان دونوں میں کوئی فرق نہیں، اور آج کے کمیونسٹ جو، رب کا انکار کرکے پھولے نہیں سما رہے ہیں، یہ صرف تکبر وغرور اور صحیح عقل وفکر کے نتائج سے عاری ہونے کی وجہ سے ہے،اور جو اس مقام پر پہنچ جائے، اس نے اپنی عقل وخرد کوآخری سلام کردیا اور لوگوں کے لئے مذاق کا ایک موضوع بن گیا ۔جیسا کہ شاعر کہتا ہے :
فَیَا عَجَبًاکَیْفَ یُعْصَی الْإِلٰہ ُ أَمْ کَیْفَ یَجْحَدُہُ الْجَاحِدُ
وَفِیْ کُلِّ شَیْئٍ لَہُ آیَۃٌ تَدُلُّ عَلٰی أَنَّہُ وَاحِدٌ
تعجب ہے،کوئی معبودِ برحق کی کیسے نافرمانی کرتا ہے، جھٹلانے والا اسے کیسے جھٹلا سکتا ہے ؟ جب کہ ہر چیز میں ایک نشانی ہے، جو یہ بتلا رہی ہے کہ وہ اکیلا ہے۔
دوسری فصل:
قرآن و سنّت میں رب کا مفہوم، ربوبیت کے بارے میں گمراہ امّتوں کا تصوّر اور اسکا رد
۱۔ قرآن اور سنّت میں لفظِ ’’رب ‘‘کا مفہوم:
رب در اصل ربَّ یَرُبُّ کا مصدر ہے، اس کا معنیٰ یہ ہے کہ ’’ اس نے ایک چیز کو ایک حالت سے دوسری حالت تک پرورش کرتے ہوئے حالت تکمیل تک پہنچایا ‘‘ لفظِ’’ رب ‘‘
|