Maktaba Wahhabi

247 - 242
اشخاص سے برکت طلب نہیں کرتے تھے، نہ تو ان کی زندگی میں اور نہ ان کی موت کے بعد ۔اور وہ نہ نماز ادا کرنے اور دعا مانگنے کے لئے غارِ حرا جاتے، اور نہ ہی یہ کام کرنے کے لئے کوہِ طور جاتے، جہاں پر کہ اﷲتعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے بات کیا، اور نہ وہ ان پہاڑوں پر جاتے جہاں کے متعلق یہ مشہور تھا کہ یہ أنبیاء وغیرہ کے مقامات ہیں، اور نہ ہی وہ کسی نبی کے آثار پر بنائی ہوئی کسی عمارت پر گئے ۔ اور نیز مدینہ منورہ میں وہ جگہ، جہاں ہمیشہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نماز ادا کیا کرتے تھے، سلف میں سے کسی نے نہ تو اسے چھوا اور نہ بوسہ دیا،اور نہ ہی مکہ مکرمہ وغیرہ میں جہاں پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز ادا فرمائی، اس طرح کا کوئی معاملہ پیش آیا، جب اس جگہ کا یہ حال ہے، جس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قدم مبارک پڑے ہیں، اور جہاں آپ نے نماز ادا فرمائی، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت پر نہ اس کو چھونا مسنون قرار دیا اور نہ چومنا، تو پھر کسی اور شخص کے بارے میں ایسا کیسے کہا جاسکتا ہے کہ انہوں نے وہاں پر نماز پڑھی، یا آرام کیا، تو اس جگہ کو بوسہ دینا، یا چھونا بطورِ تبرک جائز ہے ؟ جب کہ دین اسلام کے تمام علماء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے ۔ ۳۔ عبادات اور تقرب الی اﷲ سے متعلق بدعات : اس زمانے میں عبادات کے متعلق بہت سی بدعات ایجاد کرلی گئی ہیں، جب کہ عبادات تمام کی تمام توقیفی ہیں، ان میں سے کوئی بھی چیز دلیل سے ہی مشروع ہوسکتی ہے، اور جس کے متعلق کوئی دلیل نہیں، وہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان کے بموجب بدعت ہے : ’’ مَنْ عَمِلَ عَمَلًا لَیْسَ عَلَیْہِ أَمْرُنَا فَہُوَ رَدٌّ ‘‘بخاری ومسلم ) ترجمہ : جس نے کوئی ایسا کام کیا جو ہمارے حکم کے مطابق نہیں ہے پس وہ مردود اور نا قابلِ قبول ہے
Flag Counter