Maktaba Wahhabi

78 - 242
ساتھ اﷲ کی طرف رجوع کیا، اور تم لوگ اﷲ سے سرکشی نہ کرو۔ اس آیتِ کریمہ میں عبادات کی ادائیگی میں کامل منہج کا پلان پیش کیا گیا ہے اور وہ اعتدال کی راہ پر استقامت سے گامزن ہونے کی راہ ہے، جس میں نہ تو افراط ہے اور نہ تفریط، ( کَمَا اُمِرْتَ)سے مراد شریعت کے مطابق ہے، پھر اس قول کی تاکید( وَلَا تَطْغَوْا )سے کی گئی ہے طغیان : شدّت پسندی کے ساتھ حد سے آگے بڑھنے کو کہتے ہیں اور یہ غلو ہے. جب رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے ان تین صحابہ کا پتہ چلا جنہوں نے اپنے اعمال کو بہت ہی قلیل سمجھتے ہوئے ایک نے کہا تھا : میں ہمیشہ روزہ رکھوں گا کبھی روزہ نہیں چھوڑوں گا ۔‘‘ دوسرے نے کہا : میں ساری رات نماز پڑھوں گا سوؤں گا نہیں ۔‘‘ اور تیسرے نے کہا تھا کہ :’’ میں کبھی عورتوں سے شادی نہیں کروں گا ‘‘آپ نے فرمایا :" أَمَّا أَنَا فَأَصُوْمُ وَأُفْطِرُ وَأَتَزَوَّجُ النِّسَائَ، فَمَنْ رَغِبَ عَنْ سُنَّتِیْ فَلَیْسَ مِنِّی " ترجمہ :میں روزہ رکھتا ہوں اور روزہ چھوڑتا بھی ہوں، عورتوں سے شادی بیاہ کرتا ہوں، جو میرے طریقے سے ہٹتا ہے وہ میرا نہیں ہے ۔( متفق علیہ ) لیکن یہاں لوگوں کے دو گروہ ہیں جو عبادت کے معاملے میں دو مختلف تضاد کے شکار ہیں : پہلا گروہ : اس گروہ نے عبادت کے مفہوم کے متعلق کوتاہی کی اور اس کی ادائیگی میں سستی برتی، یہاں تک کہ عبادت کی کئی قسموں کو چھوڑ دیا، انہوں نے عبادت کو چند اعمال اور شعائرتک ہی محدود کرڈالا جو صرف مسجد میں ادا کئے جاتے ہیں، گھر اور دفتر، مارکیٹ اور راستے، معاملات اور سیاست اور نہ ہی باہمی تنازعات اور زندگی کے کسی خانے میں اس کے لئے کوئی راہ ہے۔ ہاں مسجدکی اپنی جگہ ایک فضیلت ہے، اس میں پانچوں وقت کی فرض نماز باجماعت ادا کرنا واجب ہے، لیکن عبادت تو مسلمان کی زندگی کے تمام شعبوں پر محیط ہے، چاہے وہ
Flag Counter