ہیں، نام اور معنیٰ میں مشترک ہونا حقیقی اشتراک کا موجب نہیں ہوسکتا، اﷲ تعالیٰ نے اپنا نام، علیم، حلیم ذکر کیا ہے، نیز اس نے اپنے بعض بندوں کو بھی علیم کہا ہے جیسے حضرت اسحاق علیہ السلام کے متعلق فرمایا : ﴿ وَبَشَّرُوْہُ بِغُلَامٍ عَلِیْمٍ﴾ ( الذاریات: 28 )ترجمہ : اور انہوں نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو ایک ذی علم لڑکے کی خوشخبری دی ۔
اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کے متعلق فرمایا : ﴿ فَبَشَّرْنَاہُ بِغُلَامٍ حَلِیْمٍ﴾ (الصافات : 101) ترجمہ : اور انہوں نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو ایک ذی حلم لڑکے کی خوشخبری دی ۔
اﷲ تعالیٰ نے اپنا نام سمیع اور بصیر رکھا ہے، جیسا کہ فرمان ہے : ﴿ اِنَّ اللّٰہِ کَانَ سَمِیْعًا بَصِیْرًا﴾ ( النساء : 58) ترجمہ : اور بے شک اﷲ خوب سننے والا اور دیکھنے والا ہے ۔
اور اپنے بعض بندوں کو بھی سمیع اور بصیر کہا ہے، جیسا کہ ارشاد ہے : ﴿ اِنَّا خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ مِنْ نُّطْفَۃٍ اَمْشَاجٍ نَبْتَلِیْہِ فَجَعَلْنَاہُ سَمِیْعًا بَصِیْرًا﴾ (الإنسان :2 ) ترجمہ :بے شک ہم نے انسان کو مخلوط نطفہ سے پیدا کیا، تاکہ ہم اسے آزمائیں، پس ہم نے اسے خوب سننے والا، اچھی طرح دیکھنے والا بنایا ہے.
حالانکہ سننے اور دیکھنے والا انسان حقیقی سننے اور دیکھنے والے رحمن کی طرح ہرگز نہیں ہے اﷲ تعالیٰ نے اپنا نام رؤوف اور رحیم رکھا ہے ۔ جیسا کہ فرمانِ الٰہی ہے :
﴿ اِنَّ اللّٰہِ بِالنَّاسِ لَرَئُ وْفٌ رَّحِیْمٌ ﴾ ( الحج :65)
ترجمہ : یقینًا اﷲ لوگوں پر بڑا مہربان، نہایت رحم کرنے والا ہے ۔
اور اپنے بعض بندوں کو بھی یہ نام دیا ہے،ارشاد ہے :﴿ لَقَدْ جَآء َکُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ اَنْفُسِکُمْ عَزِیْزٌ عَلَیْہِ مَا عَنِتُّمْ حَرِیْصٌ عَلَیْکُمْ بِالْمُؤْمِنِیْنَ رَئُ وْفٌ رَّحِیْمٌ ﴾( التو بۃ :128)ترجمہ :( مسلمانو)تمہارے لئے تم ہی میں سے ایک رسول آئے ہیں،جن پر ہر وہ بات شاق گذرتی ہے جس سے تمہیں تکلیف ہوتی ہے، تمہاری ہدایت کے بڑے خواہش مند ہیں، مومنوں کیلئے
|