فریاد طلبی اور نذر ونیاز وغیرہ ۔
امام إبن قیم رحمہ اﷲ فرماتے ہیں : ’’جو شخص قبروں کے متعلق رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت اور آپ کے اوامر ونواہی، صحابہ کرام کے تعامل کو اور دوسری طرف قبروں کے ساتھ آج کے مسلمانوں کے عمل کو دیکھے گا تو وہ محسوس کرے گا کہ یہ دونوں ایک دوسرے کی ضد ہیں جو کبھی ایک ساتھ جمع نہیں ہوسکتے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبروں کی جانب رُخ کرکے نماز پڑھنے سے روکا ہے اور یہ لوگ انہی کی جانب نماز پڑھتے ہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبروں کو مسجد بنانے سے روکا ہے اور یہ لوگ ان پر مسجدیں تعمیر کررہے ہیں اور انہیں اﷲ کے گھروں کے مقابلے میں ’’مشاہد ‘‘یادگاروں کا نام دیتے ہیں ۔ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان پر چراغ روشن کرنے سے روکا ہے اور یہ لوگ ان پر قندیلیں جلانے کے لئے بڑی بڑی جائیدادیں وقف کرتے ہیں، اور قبروں پر میلہ لگانے سے روکا ہے اور یہ لوگ وہاں پر میلے اور عرس اور دیگر عبادتیں کرتے ہیں، اور وہاں پر عید کی طرح کثیر تعداد میں جمع ہوتے ہیں، بلکہ اس سے بھی کہیں زیادہ کا اجتماع ہوتا ہے ۔
جب کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبروں کو زمین کے برابر کرنے کا حکم دیا ہے، جیسا کہ حضرت ابو الھیاج الأسدی سے مروی ہے ‘ وہ کہتے ہیں :’’ قال لی علی بن أبی طالب ‘ أَلَا أَبْعَثُکَ عَلٰی مَا بَعَثَنِیْ عَلَیْہِ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم ؟ أَن لَّا تَدَعْ تِمْثَالًا إِلاَّ طَمَسْتَہُ وَلَاقَبْرًا مُشْرِفًا إِلاَّ سَوَّیْتَہُ ‘‘( مسلم )
ترجمہ :مجھ سے حضرت علی بن أبی طالب رضی اﷲ عنہ نے کہا: ’’کیا میں تمہیں اس مہم پر روانہ کروں جس پر مجھے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے روانہ کیا تھا ؟ وہ یہ کہ تم ہر مورت کو مٹادو اور ہر بلند قبر کو زمین کے برابر کردو ‘‘ ۔
|