سو اس مسجد کے موجود ہونے سے لازم نہیں آتا کہ اتنی مدت میں روحاکے لوگ مسلمان ہو چکے ہوں۔ اس واسطے کہ یہ مسجد روحا کے مسلمانوںں کی تعمیر کی ہوئی نہیں تھی۔ نہایت قدیم تھی تب ہی تو اس میں ستر نبیوں کی نماز پڑھنے کا موقع ملا۔ علاوہ بریں ترمذی کی روایت اس طرح پرہے۔ ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم صلی فی وادی الروحاء وقال لقد صلی فی ھذا المسجد سبعون نبیا گذافی الفتح ۔ ’’آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے وادی روحا میں نماز پڑھی اور فرمایا اس مسجد میں ستر نبیوں نے نماز پڑھی ہے ۔‘‘ جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے روحا کے وادی میں نماز پڑھی تھی نہ کسی مسجد میں۔ اور آپ کا فی ھذا المسجد فرمانا باعتبار معنی لغوی کے ہے۔ الحاصل مؤلف کا یہ قول کہ چنانچہ روحا کی مساجد میں سے ایک ایسی مسجد تھی الخ۔ سراسر مغالطہ ہے۔ اور اگر فرض کیا جائے کہ جواثا میں جمعہ قائم ہونے سے پہلے روحا کے لوگ مسلمان ہو چکے تھے اور یہاں مسجدیں بھی تعمیر ہو چکی تھیں تو بھی جناب مؤلف کو بجز ضرر کے کچھ فائدہ نہیں۔ اس واسطے کہ مقام روحا قریہ جامعہ تھا۔فتح الباری (ص۲۸۲ج۱) میں ہے ھی قریۃ جامعۃ علی لیلتین من المدینۃ اور قریہ جامعہ میں عند الاححناف جمعہ فرض ہے۔ پس اب جناب مولف کو بتانا چاہیے کہ جب روحاقریہ جامعہ تھا۔ اور یہاں کے لوگ جواثا سے پیشتر مسلمان بھی ہو چکے تھے۔ پھر یہاں جواثا سے پیشتر جمعہ کیوں نہیں قائم ہوا۔ المختصر ۔ جناب شوق صاحب یا تو یہ تسلیم کریں کہ جواثا سے پیشتر روحا کے لوگ مسلمان نہیں ہوئے تھے۔ یا تو روحا میں آثا سے پیشتر جمعہ نہ قائم ہونے کی وجہ بیان کریں۔ |
Book Name | مقالات محدث مبارکپوری |
Writer | الشیخ عبدالرحمٰن مبارکپوری |
Publisher | ادارہ علوم اثریہ |
Publish Year | |
Translator | |
Volume | |
Number of Pages | 277 |
Introduction | مولانا محمد عبدالرحمٰن مبارکپوری شیخ الکل فی الکل میاں سید نذیر حسین محدث دہلوی کے چند مامور شاگردوں میں سے ایک ہیں ۔آپ اپنے وقت کےبہت بڑے محدث،مفسر، محقق، مدرس ، مفتی،ادیب اور نقاد تھے ۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں علم کی غیر معمولی بصیرت وبصارت،نظر وفکرکی گہرائی ،تحقیق وتنقیح میں باریک بینی اور ژرف نگاہی عطاء فرمائی تھی ۔زہد وتقوی ،اخلاص وللّٰہیت،حسن عمل اور حسن اخلاق کے پیکر تھے۔یہ ایک حقیقت ہےکہ’’برصغیر پاک وہند میں علم حدیث‘‘ کی تاریخ تب تلک مکمل نہیں ہوتی جب تک اس میں مولانا عبدالرحمٰن محدث مبارکپوری کی خدمات اور ان کا تذکرہ نہ ہو۔جامع الترمذی کی شرح تحفۃ الاحوذی ان ہی کی تصنیف ہے۔ زیر تبصرہ کتاب’’مقالات محدث مبارکپوری ‘‘ مولانا محمد عبد الرحمٰن مبارکپوری کی نایاب تصانیف کا مجموعہ ہے ۔اس میں مولانامبارکپوری مرحوم کی آٹھ تصانیف کے علاوہ ان نادر مکتوبات اور شیخ الھلالی کا وہ قصیدہ جو انہوں نے حضرت مبارکپوری کےمحامد ومناقب میں لکھا شامل اشاعت ہے۔ |