Maktaba Wahhabi

32 - 242
((قَالُوْا یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ صلی اللّٰہ علیہ وسلم مَا الْمُسْتَرِیْحُ وَمَا الْمُسْتَرَاحَ مِنْہُ قَالَ الْعَبْدُ الْمُوْمِنُ یَسْتَرِیْحُ مِنْ نَصَبِ الدُّنْیَا وَاَذَاھَا اِلٰی رَحْمَۃِ اللّٰہِ))[1] ’’مستریح اورمستراح منہ کون ہیں ؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مومن بندہ دنیا کی مشقتوں اور اس کی تکالیف سے نجات پا کر اللہ تعالیٰ کی رحمت کے سایہ میں چلا جاتا ہے اورکافر اور ظالم کی موت سے اس کے کفر کے وبال اور چہرہ دستیوں سے زیر دستوں کو یہ راحت حاصل ہوتی ہے۔‘‘ ان تصریحات سے واضح ہوا کہ مومن کے لیے گویا موت ایک مبارک قدم قاصد ہے جو اسے پردیس سے اپنے اصل دیس کی طرف پلٹ جانے کی نوید سناتا ہے یا پھر ایک سبک رفتار سواری ہے جو اپنے حقیقی محبوب (اللہ تعالیٰ) کی فرقت سے دو چار مومن کو اٹھا کر آنکھ کی ایک جھپک میں حریم قدس میں پہنچا کر وصل حقیقی کی نعمت علیا سے سرفراز کر دیتی ہے یہی وجہ ہے کہ موت کو مومن کے لیے تحفہ کہا گیا ہے۔[2]بنا بریں کافر اورملحد کوموت سے جس قدر نفرت اور وحشت ہوتی ہے مومن اس سے کہیں زیادہ موت کی تیاری کرتا ہے لیکن اس تیاری کے باوجود موت کی دعابھی نہیں مانگتا کہ وہ جانتا ہے کہ میری عمر عزیز میری صحت و عافیت، میری صلاحیتیں اور میری فراغتیں اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ نعمت اور دین ہیں اور مجھے ان سب کا حساب دینا ہے لہٰذا میں انہیں جس قدر نیک کاموں میں صرف کروں گا، اسلام کو اقطار علم میں نافذ کرنے کے لیے جتنی زیادہ عملی جدو جہد کروں گا، کفر و شرک کے شجر خبیثہ کو بیخ وبن سے اکھاڑ پھینکنے میں جس قدر (دینی صلاحیتوں ) کو بروئے کار لاؤں گا۔ توحید و سنت کی ترویج و اشاعت میں انہیں جتنا زیادہ استعمال کروں گا اور ان کے ذریعے شہادۃ حق کا جتنا زیادہ حق ادا کروں گا اسی قدر اللہ تعالیٰ کے ہاں فلاح و فوز کی ابدی سعادتوں سے سرفراز کیا جاؤں گا
Flag Counter