Maktaba Wahhabi

183 - 242
اور جب بچے کی وصیت باطل ہے تو اس کی رضا کا کیا اعتبار ہے۔ ایک مغالطہ:..... ((عَنْ عَاصِمِ بْنِ کُلَیْبٍ عَنْ رَجُلٍ قَالَ خَرَجْنَا مَعَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صلی اللّٰہ علیہ وسلم فِیْ جَنَازَۃٍ فَلَمَّا رَجَعَ اِسْتَقْبَلَہٗ دَاعِیُ اِمْرَاَتَہٗ فَاَجَابَ وَ نَحْنُ مَعَہٗ فَجِیْئَ بِالطَّعَامِ فَوَضَعَ یَدَہٗ ثُمَّ وَضَعَ الْقَوْمُ فَاَکَلُوْا))[1] ’’ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ جنازہ میں شامل تھے، جب دفن کے بعد واپس لوٹے تو میت کی بیوی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دعوت کا پیغام بھیجا جو آپ نے قبول فرما لیا۔ پس کھانا لایا گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اور قوم نے تناول فرمایا۔‘‘ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ میت کے گھر کی دعوت قبول کرنا جائز ہے اور کھانا حرام اور مکروہ نہیں ہوتا۔ جواب:..... یہ حدیث ان الفاظ کے ساتھ صحیح نہیں ہے۔ غالب خیال یہ ہے کہ یہ کاتب کی قلمی لغزش کا نتیجہ یا پھر صاحب مشکوٰۃ خطیب تبریزی سے سہواً کلمہ ’’اِمْرَاَتَہٗ‘‘ میں ہٖ ضمیر کا اضافہ ہو گیا ہے۔ کیونکہ مشکوٰۃ کے مآخذ سنن ابی داؤد میں ((فَلَمَّا رَجَعَ اِسْتَقْبَلَہٗ دَاعِیَ امْرَاَۃٍ)) [2] کے الفاظ مروی ہیں ۔ کہ ’’واپسی پر کسی عورت نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کھانے کی دعوت پر بلایا۔‘‘ مولانا احمد رضا بریلوی کی رائے: اس عورت نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پہلے سے دعوت دے رکھی تھی۔ وقتِ موعود پر تقدیراً اس کا خاوند فوت ہو گیا۔ بنا بریں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا وہاں کھانا تناول کرنا وفات کی وجہ سے نہ تھا بلکہ سابق وعدہ کی بنا پر تھا۔[3]
Flag Counter