Maktaba Wahhabi

128 - 242
شرابی کی نماز جنازہ پڑھنا جائز ہے یا نہیں ؟ سوال:..... مسمی نذیر عادی شرابی تھا۔ ایک روز اس نے معمول سے زیادہ شراب پی لی اور مر گیا۔ اس کی نماز جنازہ پڑھنی صحیح ہے یا نہیں ؟ (سائل: عبدالجبار محمد لنگر مخدوم) جواب:..... واضح ہو کہ اسلام میں نہ صرف قلیل یا کثیر شراب کا پینا حرام ہے بلکہ فاقد الماء کو لقمہ نگلنے اور بیمارکو بطور علاج بھی اس کا ایک گھونٹ پی لینے کی اجازت نہیں ہے۔ مدمن خمر (عادی شرابی) کے لیے اور بھی سخت وعید آئی ہے بایں ہمہ عادی شرابی بشرطیکہ شراب کو حلال نہ سمجھتا ہو خارج از اسلام نہیں ہوتا۔ گوکثرت شراب نوشی کی وجہ سے اس کا ایمان کمزور ہو جاتا ہے۔ چنانچہ سیّدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے: ((عَنْ اَبِیْ ہُرَیْرَۃَ رضی اللّٰہ عنہ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللّٰہ علیہ وسلم لَا یَزْنِی الزَّانِیْ حِیْنَ یَزْنِیْ وَہُوَ مُوْمِنٌ وَلَا یَسْرِقُ السَّارِقُ حِیْنَ یَسْرِقُ وَہُوَ مُؤْمِنٌ وَلَا یَشْرَبُ الْخَمْرَ حِیْنَ یَشْرَبُ وَہُوَ مُؤْمِنٌ..... الخ))[1] ’’جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کوئی زانی زنا کرتے وقت، کوئی چور چوری کرتے وقت اورکوئی شرابی شراب پیتے وقت کامل ایمان دار نہیں ہوتا۔‘‘ یعنی شرابی وغیرہ کو فاسق تو کہا جا سکتا ہے مگر اس کو کافر کہنا جائز نہیں کیونکہ کبیرہ گناہ کے ارتکاب سے کفر لازم نہیں آتا جیسا کہ سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے: ((عَنْ اَنَسٍ رضی اللّٰہ عنہ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ثَلٰثٌ مِنْ اَصْلِ الْاِیْمَانِ اَلْکَفُّ عَمَّنْ قَالَ لَا اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ لَا تُکَفِّرْہُ بِذَنْبٍ وَلَا
Flag Counter