Maktaba Wahhabi

182 - 242
کے مال سے تیار کیا گیا ہو تو بلا اختلاف یہ حرام ہے۔ فاضل بریلوی احمد رضا خاں کا فتویٰ: غالباً ورثہ میں کوئی یتیم یا بچہ نابالغ ہوتا یا بعض ورثا موجود نہیں ہوتے نہ ان سے اس کا اذن لیا جاتا ہے جب تو یہ امر سخت حرام شدید پر متضمن ہوتا ہے۔ اللہ عزوجل فرماتا ہے: ﴿اِنَّ الَّذِیْنَ یَاْکُلُوْنَ اَمْوَالَ الْبَتٰمٰی ظُلْمًا اِنَّمَا یَاْکُلُوْنَ فِیْ بُطُوْنِہِمْ نَارًا وَ سَیَصْلَوْنَ سَعِیْرًا،﴾ (آل عمران: ۱۰) ’’بے شک جو لوگ یتیموں کا مال ناحق کھاتے ہیں بلاشبہ وہ اپنے پیٹ میں انگارے بھرتے ہیں اور قریب ہے کہ جہنم کی گہرائی میں جائیں گے۔‘‘ مال غیر میں بے اذن تصرف خود ناجائز ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿لَا تَاْکُلُوْا اَمْوَالَکُمْ بَیْنَکُمْ بِالْبَاطِلِ﴾ (البقرۃ: ۱۸۸) خصوصاً نابالغ کا مال ضائع کرنا جس کا اختیار نہ خود اسے نہ اس کے باپ کو نہ اس کے وصی کو ہے: ((لِاَنَّ الْوِلَایَۃَ لِلنَّظْرِ لَا الضَّرَرِ)) علی الخصوص اگر ان میں کوئی یتیم ہوا تو آفت سخت تر ہے۔ و العیاذ باللّٰہ رب العالمین ہاں اگر محتاجوں کو دینے کو کھانا پکوائیں تو حرج نہیں بلکہ خوب ہے بشرطیکہ یہ کوئی عاقل بالغ اپنے مال خاص سے کرے یا ترکہ سے کریں تو سب وارث موجود، بالغ و نابالغ راضی ہوں ۔ خاں صاحب بریلوی کا یہ فتویٰ قابل داد ہے۔ مگر آخر میں ان کا یہ کہنا کہ بالغ و نابالغ سب راضی ہوں ، ناقابل فہم ہے کیونکہ فقہاء حنفیہ نے وضاحت کر دی ہے کہ نابالغ کی وصیت نافذ نہیں ہو سکتی۔ ((لَا تَجُوْزُ وَصِیَّۃُ الصَّبِیِّ اِذَا لَمْ یَکُنْ مُرَاہِقًا عِنْدَنَا وَ کَذَا اِذَا کَانَ مُرَاہِقًا))[1]
Flag Counter