روایت لائے ہیں :
((کُنَّا نَعُدُّ الْاِجْتِمَاعَ اِلٰی اَہْلِ الْمَیِّتِ وَ صَنْعِہِمُ الطَّعَامَ مِنَ النَّیَاحَۃِ))[1]
’’ہم (صحابہ رضی اللہ عنہم ) اہل میت کے یہاں جمع ہونے اور ان کے کھانا تیار کرانے کو (نیاحہ) نوحہ شمار کرتے تھے۔‘‘
آگے مذکورہ فقہی فتویٰ بڑی تفصیل سے لکھتے ہیں :
دوسرا فتویٰ:
تین برس کے بچے کی فاتحہ دوجے کی ہونا چاہیے یا سوم کی؟ بینوا و توجروا۔
جواب:..... شریعت میں ثواب پہنچانا ہے دوسرے دن ہو خواہ تیسرے دن، باقی یہ تعیین عرفی ہیں جب چاہیں کریں ۔ انہی دنوں کی گنتی ضروری جاننا جہالت و بدعت ہے۔[2]
ایسی ہی بے ثبوت اور ناجائز رسموں کی تردید کرتے ہوئے ایک سوال کے جواب میں لکھتے ہیں :
سوال:..... بعض لوگ کہتے ہیں کہ فلاں درخت پر شہید ہیں اورفلاں طاق میں شہید مرد رہتے ہیں ۔ اس درخت اور طاق کے پاس جا کر ہر جمعرات فاتحہ دلاتے ہیں ، کیا یہ لوگ حق پر ہیں ؟ کیا شہید درختوں اور طاقوں میں رہتے ہیں ؟ بینوا بالکتاب و توجروا بالثواب۔
جواب:..... یہ سب واہیات و خرافات اور جاہلانہ حماقات و بطلات ہیں ۔ ان کا ازالہ لازم ہے:
’’مَا اَنْزَلَ اللّٰہُ بِہَا مِنْ سُلْطَانٍ وَ لَا حَوْلَ وَ لَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللّٰہِ الْعَلِیِّ الْعَظِیْمِ‘‘[3]
|