موقع پر ہوتی ہیں نہ کہ غمی میں اور یہ بدترین بدعت ہے۔‘‘
علامہ شامی حنفی کا فتویٰ:
((وَ یَکْرَہ اِتِّخَاذُ الضِّیَافَۃِ مِنَ الطَّعَامِ مِنْ اَہْلِ الْمَیِّتِ لِاَنَّہٗ شُرِعَ فِی السُّرُوْرِ لَا فِی الشُّرُوْرِ وَ ہِیَ بِدْعَۃٌ مُسْتَقْبَحَۃٌ ..... وَ قَالَ ہٰذِہِ الْاَفْعَالُ کُلُّہَا لِلسُّمْعَۃِ وَ الرِّیَائِ فَیُحْتَرَزُ عَنْہَا لِاَنَّہُمْ لَا یُرِیْدُوْنَ بِہَا وَجْہَ اللّٰہِ))[1]
’’اہل میت کو کھانا پکانا مکروہ ہے اور تمام کام شہرت اور ریاکاری کے لیے کیے جاتے ہیں ان سے گریزاں رہنا انتہائی ضروری ہے کیونکہ ان کاموں میں رضائے الٰہی مقصود نہیں ہوتی۔‘‘
میت کے گھر کا تیار شدہ کھانا حرام ہے:
اوپر کی تصریحات سے ثابت ہوا کہ اہل میت کو کھانا پکانا خود حنفیہ کے نزدیک جائز نہیں ہے اور حنفی اکابر نے اس کھانے کو حرام قرار دیا ہے۔
ملا علی قاری حنفی کا فتویٰ:
((بَلْ صَحَّ عَنْ جَرِیْرٍ کُنَّا نَعُدُّہٗ مِنَ النِّیَاحَۃِ وَ ہُوَ ظَاہِرٌ فِی التَّحْرِیْمِ قَالَ الْغَزَالِیُّ وَ یُکْرَہُ الْاَکْلُ مِنْہُ قُلْتُ ہٰذَا اِذَا لَمْ یَکُنْ مِنْ مَالِ الْیَتِیْمِ اَوِ الْغَائِبِ وَ اِلَّا فَہُوَ حَرَامٌ بِلَا خِلَافٍ))[2]
’’اہل میت کی دعوت کھانا جائز نہیں ہے بلکہ سیدنا جریر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کی صحیح حدیث ہے کہ اہل میت کے ہاں اجتماع اور ان کے ہاں کھانا پکنا نوحہ ہے اور اس حدیث سے اس کھانے کی صریح حرمت ثابت ہوتی ہے۔‘‘
امام غزالی رحمہ اللہ لکھتے ہیں : میں کہتا ہوں جب کھانا یتیموں ، بیواؤں اور غیر حاضر لوگوں
|