Maktaba Wahhabi

184 - 242
فتاویٰ شامی: ((مَذْہَبُنَا وَ مَذْہَبُ غَیْرِنَا کَالشَّافِعِیَّۃِ وَ الْحَنَابِلَۃِ اِسْتِدْلَالًا بِحَدِیْثِ جَرِیْرِ الْمَذْکُوْرِ عَلَی الْکَرَاہَۃِ لَاسِیَمَا اِذَا کَانَ فِی الْوَرَثَۃِ صِغَارٌ وَ غَائِبٌ))[1] ’’سیدنا جریر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کی حدیث سے استدلال کرتے ہوئے شافعیہ اور حنابلہ کی طرح ہمارا مذہب بھی یہی ہے کہ اہل میت کو دعوت کرنا مکروہ ہے۔‘‘ تیجا، ساتا، چالیسواں اور برسی کا حکم: حنفیہ کے نزدیک اگرچہ بدنی عبادت کا ثواب میت کو پہنچتا ہے تاہم سوئم، ہفتم، چہلم اور برسی وغیرہ رسمیں خود حنفیہ کے نزدیک بھی ثابت نہیں ہیں ۔ فتاویٰ عالمگیری میں ہے: ((وَ لَا یُبَاحُ اِتِّخَاذُ الطَّعَامِ ثَلَاثَۃَ اَیَّامٍ کَذَا فِی التَّتَارِ خَانِیَّۃٍ))[2] ’’تین دن تک میت کے گھر کھانا تیار کرنا مباح نہیں ۔‘‘ فقیہ محمد بن شہاب کر دی کا فتویٰ یہ ہے: ((یَکْرَہُ اِتِّخَاذُ الطَّعَامِ فِی الْیَوْمِ الْاَوَّلِ وَ الثَّالِثِ وَ بَعْدَ الْاُسْبُوْعِ))[3] ’’موت کے پہلے تیسرے اور ساتویں دن کھانا تیار کرنا مکروہ ہے۔‘‘ شاہ محمد اسحاق دہلوی رحمہ اللہ کا فتویٰ: ’’ہم چنیں مقرر ساختن روز سوم و دہم و پختن طعام و اتخاذ دعوت طعام بقرآن خواناں دریں روزے مکروہ است۔‘‘[4]
Flag Counter