Maktaba Wahhabi

180 - 242
اَخَذَ وَ مَا اَعْطٰی وَ کُلُّ شَیْئٍ عِنْدَہٗ اِلٰی اَجَلٍ))[1] ’’اللہ کے لیے ہے جو اس نے واپس لے لیا ہے اور اسی کا ہے جو اس نے دے رکھا ہے اور اللہ کے پاس ہر ایک چیز کا وقت مقرر ہے۔‘‘ اہل میت کا لوگوں کے لیے کھانا تیار کرنا: ہمارے ہاں رواج ہو چکا ہے کہ اگرچہ جیب اجازت نہ بھی دے تب بھی قرض اٹھا کر تعزیت کرنے والوں کے لیے دعوتیں پکائی جاتی ہیں ۔ اس سے پہلے مسائل میں از روئے حدیث لکھا جا چکا ہے کہ اہل میت کے ہاں اکٹھے ہونا اور وہاں دعوت کھانا گویا رونا اور پیٹنا ہے اور رونا پیٹنا ملعون ہے، اہل حدیث کے علاوہ مالکیوں نے مدخل میں (۳؍۲۸۹) شوافع نے فتاویٰ کبری (۲؍۷) اور حنابلہ نے مغنی (۲؍۴۱۳) میں اس کو سخت بری رسم لکھا ہے۔ علامہ طحطاوی حنفی کا فتویٰ: ((وَ یَکْرَہُ الْاَطْعِمَۃَ مِنْ اَہْلِ الْمَیِّتِ لِاَنَّہَا تُتَّخَذُ عِنْدَ السُّرُوْرُ))[2] ’’اہل میت کا لوگوں کے لیے کھانا تیار کرنا مکروہ ہے کیونکہ ایسی دعوتیں خوشی کے موقع پر ہوتی ہیں ۔‘‘ امام کمال ابن ہمام حنفی کا فتویٰ: ((وَ یَکْرَہ اِتِّخَاذُ الضِّیَافَۃِ مِنَ الطَّعَامِ مِنْ اَہْلِ الْمَیِّتِ لِاَنَّہٗ شُرِعَ فِی السُّرُوْرِ لَا فِی الشُّرُوْرِ وَ ہِیَ بِدْعَۃٌ مُسْتَقْبَحَۃٌ وَ رَوٰی اِمَامُ اَحْمَدُ وَ ابْنُ مَاجَۃَ بِاِسْنَادٍ صَحِیْحٍ عَنْ جَرِیْرِ بْنِ عَبْدِاللّٰہِ الخ))[3] ’’میت والوں کا ضیافت تیار کرنا مکروہ ہے کیونکہ ضیافتیں اور دعوتیں تو خوشی کے
Flag Counter