Maktaba Wahhabi

166 - 242
کچھ بڑھا دے تو جائز ہے۔ [1] جواب:..... شرعی امور میں اپنی صوابدید کے مطابق ترمیم اور اضافہ جسارت ہے، اگر قبر پر اذان جائز ہوتی تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں اس کا رواج ضرور ہوتا۔ تلبیہ میں اضافے کی بنیاد سیّدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کی اس حدیث پر ہے۔ ((وَالنَّاسُ یَزِیْدُوْنَ لَبَّیْکَ ذِی الْمَعَارِجِ وَنَحْوِہٖ وَالنَّبِیُّ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یَسْمَعُ فَلَا یَقُوْلُ لَہُمْ شَیْئًا))[2] ’’لوگوں نے (لبیک ذی المعارج) اور ایسے دوسرے کلمات تلبیہ میں زیادہ کر لیے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کلمات کو سنا اور کچھ نہ کہا۔‘‘ یعنی تلبیہ کے اندر اضافے کی بنیاد تقریری حدیث پر ہے اور تقریری حدیث حجت ہوتی ہے۔ لہٰذا احمد یار صاحب کا استدلال سراسر مردود ہے کیونکہ قبر پر اذان دینے کو تلبیہ کے اوپر قیاس کرنا قیاس مع الفارق ہے۔ مفتی صاحب اگر زندہ ہوتے تو ہم عرض کرتے تیری ہر ادا میں بل ہے تیری ہر نگاہ میں الجھن میری آواز میں لیکن کوئی پیچ ہے نہ خم اس سلسلے میں کچھ مغالطے اور بھی دیے گئے ہیں مگر وہ بھی کھینچ تان اور بے ثبوت امور پر مشتمل ہیں جو قابل ذکر نہیں ہیں ۔ نماز ہول خلاف سنت ہے: میت کے دفن کے بعد آنے والی پہلی رات میں میت کے لیے ایک نماز پڑھی جاتی ہے جسے صلوٰۃ ہول کہتے ہیں ، اہل حدیث کے علاوہ خود مفتیان احناف نے بھی اس کو خلاف سنت اور نیا کام لکھا ہے۔ شاہ محمد اسحق رحمہ اللہ کا فتویٰ: ’’دخواندن نماز ہول در کتب حدیث وفقہ کہ معتبر ومضبوط اندازنظر نگذشتہ لیکن در
Flag Counter