اور حق ہے اور یہ معلوم ہے کہ صحابی جب سنت کا لفظ بولے تو وہ مرفوع حدیث کے حکم میں ہوتا ہے۔[1]
اس سلسلہ میں حافظوں نے یہ بھی لکھا ہے:
((اَجْمَعُوْا اَنَّ قَوْلَ الصَّحَابِیِّ سُنَّۃٌ حَدِیْثٌ مُسْنَدٌ))
سیّدنا ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نماز جنازہ میں پہلی تکبیر کے بعد سورۃ فاتحہ پڑھنا ازاں بعد درود اور پھر میت کے لیے دعا کرنا سنت ہے۔ چنانچہ سیّدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ ، سیّدنا حسن بن علی رضی اللہ عنہ ، سیّدنا ابن زبیر رضی اللہ عنہما ، سیّدنا مسعود بن مخرمہ رضی اللہ عنہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم [2]اور امام شافعی، امام احمد حنبل، اورامام اسحاق وغیرہم ائمہ نمازجنازہ میں فاتحہ پڑھنے کے قائل تھے۔
امام طحاوی کی تاویل:
امام طحاوی حنفی نے احادیث کی صریح مخالفت پر اس تاویل سے پردہ ڈالا ہے کہ جن صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے نمازجنازہ میں سورۃ فاتحہ پڑھنا منقول ہے انہوں نے دعا کے طور پر پڑھی ہو گی نہ کہ بطور قرأۃ قرآن، ان کے الفاظ یہ ہیں :
((مَنْ قَرَأَہَا مِنَ الصَّحَابَۃِ یَحْتَمِلُ اَنْ یَّکُوْنَ عَلٰی وَجْہِ الدُّعَائِ لَا عَلَی التِّلَاوَۃِ))[3]
مگر یہ تاویل اور وکالت حدیث صحیح سے بچنے کا بڑا معصوم حیلہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امام ابن حزم نے اس تاویل نما انکار حدیث کو باطل محض قراردیا ہے۔
((ہٰذَا بَاطِلٌ لِاَنَّہُمْ ثَبَتَ عَنْہُمُ الْاَمْرُ بِالْقِرَائَ ۃِ وَاِنَّہَا سُنَّتُہَا فَقَوْلُ مَنْ قَالَ لِعِلْمِہِمْ قَرَأُوْہَا دُعَائً کِذْبٌ بَحْتٌ))[4]
’’طحاوی کی یہ تاویل باطل ہے صحابہ رضی اللہ عنہم سے نہ صرف سورۃ فاتحہ پڑھنا ثابت
|