Maktaba Wahhabi

198 - 242
قاضی ثناء اللہ پانی پتی رحمہ اللہ کا فتویٰ: ((لَا یَجُوْزُ مَا یَفْعَلُہُ الْجُہَّالُ بِقُبُوْرِ الْاَوْلِیَائِ وَ الشُّہَدَائِ مِنَ الْاِجْتِمَاعِ بَعْدَ الْحَوْلِ کَالْاَعْیَادِ وَ یُسَمُّوْنَہٗ عُرْسًا))[1] ’’جو لوگ اولیاء کرام اور شہداء عظام کی قبروں پر سال بہ سال بنام عرس جو میلے لگاتے ہیں ناجائز ہیں ۔‘‘ قاضی صاحب کی وصیت: ’’و بعد مردن من رسم دنیوی مثل برسینی، ہیچ نہ کنند۔‘‘[2] ’’میرے مرنے کے بعد دوسری دنیاوی رسموں کی طرح میری برسی بھی نہ منائی جائے۔‘‘ عرس کے کھانے کا حکم سوم، ہفتم، دہم اور چہلم کے کھانے کی طرح فقہاء حنفیہ نے عرس کے کھانے کو بھی مکروہ لکھا ہے۔ شیخ عبدالحق دہلوی رحمہ اللہ کا فتویٰ: ’’و آنکہ بعد از سالے یا ششماہی یا چہل روز دریں دیار پزیدند و درمیان برادراں بخشش کنند و آں را بہاجی گویند چیزے داخل اعتبار نیست بہتر آں است کہ نخورند۔‘‘[3] ’’برسی، ششماہی اور چہلم کے روز کھانا پکانا محض رسم ہے، بہتر ہے کہ ایسا کھانا نہ کھایا جائے۔‘‘ شاہ اسحاق کا فتویٰ: ’’مکروہ است اجابت کردن طعامیکہ بجئت مردہ کردہ باشند و چیز مے خواندن و
Flag Counter