اتنی بھاری گرز ہوتی ہے جس کی ضرب سے پہاڑ بھی مٹی ہو جاتا ہے پھر وہ داروغہ اس کو مارتا ہے جس سے وہ مٹی ہو جاتا ہے پھر اس میں روح ڈالی جاتی ہے۔‘‘
اور اس کا یہ حشر قیامت تک ہوتا رہے گا۔ بتائیے اس صورت حال میں کوئی روح واپس آ سکتی ہے؟ ہرگز نہیں ۔
سماعِ موتیٰ:
لوگوں کا یہ عقیدہ ہے کہ اہل قبور اپنے متوسلین کی پکار سن لیتے ہیں ۔ یہ عقیدہ قرآن و حدیث کی نصوص قطعیہ کے علاوہ ائمہ فقہ حنفی کی تعلیمات کے بھی خلاف ہے۔ کیونکہ فقہاء حنفیہ نے تصریح کی ہے کہ مردے قوت سماع سے قطعی طور پر محروم ہیں ۔ چند فتاویٰ پیش خدمت ہیں :
حضرت امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کا فتویٰ:
الغرائب فی تحقیق المذاہب میں ہے:
((رَاَی الْاِمَامُ اَبُوْحَنِیْفَۃَ رَجُلًا مَنْ یَاْتِیْ قُبُوْرَ اَہْلِ الصَّلَاحِ فَیُسَلِّمُ وَ یُخَاطِبُ وَ یَتَکَلَّمُ وَ یَقُوْلُ یَا اَہْلَ الْقُبُوْرِ ہَلْ لَکُمْ مِنْ خَبَرٍ وَ ہَلْ عِنْدَکُمْ مِنْ اَثَرٍ فَاِنِّیْ اَتَیْتُکُمْ وَ نَادَیْتُکُمْ مِنْ شُہُوْرٍ وَ لَیْسَ سُوَالِیْ مِنْکُمْ اِلَّا الدُّعَائَ فَہَلْ دَرَیْتُمْ اَمْ غَفَلْتُمْ فَسَمِعَ اَبُوْحَنِیْفَۃَ یَقُوْلُ مُخَاطِبًا لَہٗ فَقَالَ ہَلْ اَجَابُوْا لَکَ قَالَ لَا فَقَالَ سُحْقًا لَکَ وَ تَرِبَتْ یَدَاکَ کَیْفَ تُکَلِّمُ اَجْسَادًا لَا یَسْتَطِیْعُوْنَ جَوَابًا وَ لَا یَمْلِکُوْنَ شَیْئًا وَ لَا یَسْمَعُوْنَ صَوْتًا وَ قَرَأَ ﴿وَ مَآ اَنْتَ بِمُسْمِعٍ مَّنْ فِی الْقُبُوْرِ،﴾))[1]
’’امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ نے ایک شخص کو کچھ نیک لوگوں کی قبروں کے پاس آ کر سلام کر کے یہ کہتے ہوئے سنا کہ اے قبروں والو تم کو کچھ خبر بھی نہیں ہے اور کیا تم پر اس کا کچھ اثر بھی ہے کہ میں تمہارے پاس مہینوں سے آ رہا ہوں اور تم سے
|