Maktaba Wahhabi

135 - 242
عَلَیْہِ بِالْحَدِیْثِ الْمَشْہُوْرِ))[1] یعنی نظام الدین اولیاء حنفی میت غائب پر نماز جنازہ پڑھنے کو جائز قرار دیتے تھے اور مشہور حدیث (نجاشی) سے استدلال کرتے تھے۔ الشیخ عبدالحق محدث دہلوی حنفی کی تصریح: ((وَقَدِ اسْتَمَرَّتِ الْعَادَۃُ فِی الْحَرَمَیْنِ الشَّرِیْفَیْنِ تَعَارَفَتْ اِنَّہُمْ اِذَا سَمِعُوْا مَوْتَ اَحَدٍ مِنَ الصُّلَحَائِ اِجْتَمَعُوْا وَصَلُّوْا عَلَیْہِ وَفِیْہِمْ کَثِیْرٌ مِنَ الْحَنْفِیَّۃِ))[2] حرمین شریفین میں ہمیشہ سے علماء حرمین شریفین میں یہ عادت مشہورچلی آ رہی ہے کہ جب کبھی کسی نیک آدمی کے فوت ہونے کی خبر سنتے ہیں تو جمع ہو کرنماز (جنازہ غائبانہ) پڑھتے ہیں ۔ ان کے ساتھ بہت سے حنفی بھی شریک ہوتے ہیں ۔ قاضی علی بن جار اللہ حنفی کی وضاحت: ((سُئِلَ الْقَاضِیْ عَلِیُّ بْنُ جَارَ اللّٰہِ فَقَالَ اِنَّھَا دُعَآئٌ فَلَا بَاْسَ بِہٖ))[3] ’’نمازجنازہ غائبانہ کے متعلق قاضی علی بن جار اللہ سے دریافت کیا گیا تو انہوں نے فرمایا: یہ دعا ہے اس میں کوئی حرج نہیں ۔‘‘ مسئلہ نمازجنازہ غائبانہ پر فاضل محقق مکرم جناب مولانا کرم الدین السلفی نے عمدہ رسالہ تالیف فرمایا ہے اورمؤلف رحمہ اللہ نے حق تحقیق ادا کر دیا ہے اور اہل ذوق کے لیے بہترین تحفہ ہے۔ یہ مسئلہ اسی رسالہ سے مرحوم کے بیٹے عزیزم تقی الدین نے شائع کر دیا ہے۔ مسجد میں نمازِ جنازہ: نماز جنازہ اگرچہ آبادی سے باہر پڑھنی افضل ہے تاہم مسجد میں بھی جائز ہے جیسے کہ
Flag Counter