Maktaba Wahhabi

45 - 242
قبیلہ عکل اور قبیلہ عرینہ کے چند آدمیوں کو آب و ہوا کی تبدیلی کے لیے جنگل میں چلے جانے کی اجازت دے دی تھی۔[1] بیماری میں صبر کرنا چاہیے: دنیا مع اپنی بوقلمونیوں کے ایک مومن کے لیے چونکہ دارالامتحان یعنی آزمائشوں اور ابتلاؤں کا گھر ہے، اورمومن کو اللہ تعالیٰ کی راہ میں جان و مال اور اولاد وغیرہ کی قربانی کے لیے تیار رہنے کا حکم ملا ہے۔ اس لیے دنیا کا کٹھن سفر طے کرنے کے لیے عبودیت کے بعد صبر جمیل سے بڑھ کر مومن کے لیے کوئی اور چیز بہترین زاد راہ نہیں ہو سکتی۔ جیسا کہ ارشاد ربانی ہے: ﴿وَ لَنَبْلُوَنَّکُمْ بِشَیْئٍ مِّنَ الْخَوْفِ َوالْجُوْعِ وَنَقْصٍ مِّنَ الْاَمْوَالِ وَ الْاَنْفُسِ وَ الثَّمَرٰتِ وَ بَشِّرِ الصّٰبِرِیْنَ،﴾ (البقرۃ: ۱۵۵) ’’اور البتہ ہم تم کو ضرور کچھ ڈر، کچھ بھوک کچھ مال، کچھ جانوں ، کچھ پھلوں کے نقصان سے آزمائیں گے اور صبر کرنے والوں کو خوشخبری سنا دو۔‘‘ اس لیے بیمار کو چاہیے کہ وہ طویل سے طویل اور سخت سے سخت بیماری کو بھی اپنے حق میں رحمت سمجھے۔ پورے صبر و شکر و شکیب اور اعتقاد راسخ کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی رضا پر راضی اور اس کی ہر قسم کی قضا کو خندہ پیشانی کے ساتھ قبول کرنے کے لیے ہر حالت میں اپنے آپ کو آمادہ اور تیار رکھے۔ تکلیف کی شدت خواہ کتنی بھی زیادہ ہو، پھر بھی اللہ کے بارے میں حسن ظن ہی رکھے اور رجوع الی اللہ اور توبہ و استغفار میں غلطان رہے گویا: ہم خوش ہی خوش ہیں عشق سے گو راہِ عشق میں زنجیر و طوق و دار و رسن جا بجا ملے
Flag Counter